حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک کہانی وائرل ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاک فوج کے مبینہ سابق سپاہی محمد آصف، جو مریدکے جھڑپوں کے بعد احتجاجاً فوج چھوڑ کر عوام کو ویڈیوز کے ذریعے حقائق بتا رہا تھا، فیصل آباد میں پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
وائرل پوسٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں اور اسے تحریک لبیک سے غلط طور پر جوڑا جا رہا ہے۔ تاہم حقائق اور سرکاری ریکارڈ اس دعوے کی مکمل طور پر تردید کرتے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق پاک فوج کی جانب سے کسی ’’محمد آصف‘‘ کے استعفے کا کوئی بیان، ریکارڈ یا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ آئی ایس پی آر نے بھی کبھی ایسا کوئی واقعہ یا مبینہ ویڈیوز کی توثیق نہیں کی۔ ملک کے کسی معتبر میڈیا ادارے، اخبارات یا نیوز چینل نے اس شخص کے استعفے، احتجاجی ویڈیوز یا پولیس مقابلے کی کوئی خبر شائع نہیں کی۔
فیصل آباد پولیس ریکارڈ میں بھی ایسا کوئی مقابلہ درج نہیں جس میں سابق فوجی آصف نامی شخص شامل ہو۔ نہ کوئی ایف آئی آر سامنے آئی، نہ اہل خانہ کا کوئی بیان، نہ عدالت یا میڈیا نے کسی کارروائی کا ذکر کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ریلز اور پوسٹس میں نہ کوئی قابلِ تصدیق تصویر موجود ہے، نہ شناختی معلومات، نہ کوئی سرکاری حوالہ۔ ویڈیوز میں پرانی فوٹیج، اسٹاک تصاویر اور شاعرانہ آوازوں کا استعمال کیا گیا ہے۔
اسی طرح ٹویٹر، یوٹیوب، اور واٹس ایپ گروپس میں گردش کرنے والے دعووں میں تاریخ، مقام، اور شناخت انتہائی مبہم رکھی گئی ہے، جو جعلی خبروں کا ایک عام طریقہ ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن سمیت کسی بھی تنظیم نے واقعے کی تصدیق نہیں کی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ مریدکے جھڑپوں کا معاملہ ایک حساس معاملہ تھا، اسی پس منظر میں اس طرح کی من گھڑت کہانیاں زیادہ قابلِ یقین محسوس ہوتی ہیں اور تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔ تاہم دستیاب شواہد کے مطابق ’’آصف نامی سابق فوجی کی ہلاکت‘‘ محض سوشل میڈیا افسانہ ہے، جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
دیکھیں: تحریک لبیک پر حکومت پاکستان نے پابندی عائد کر دی، کالعدم جماعت بھی قرار دے دیا گیا