افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کابل میں صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے گفتگو کرتے ہوئے ریاستِ پاکستان پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان کو گذشتہ کئی دہائیوں کے مسائل کا موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ تاہم امیر خان متقی نے پاکستان کے دہشت گردی بالخصوص ٹی ٹی پی سے متعلق تحفظات پر جواب دینے سے گریز کیا۔
ٹی ٹی پی کی موجودگی پر خاموشی
امیر خان متقی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس چیز کو نظر انداز کیا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قیادت افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان پر ہونے والے متعدد حملے افغان سرزمین سے کیے گئے ہیں۔ متقی نے پاکستان کے خدشات و تحفظات کو بے بنیاد اور حقائق کے منافی قرار دیا جبکہ دوسری جانب پاکستان اور عالمی اداروں کے پاس اس کے برعکس رپورٹس موجود ہیں، جن میں ٹی ٹی پی اور دیگر گروہوں کے تربیتی مراکز، پناہ گاہیں اور سرحد پار حملوں کے شواہد شامل ہیں۔پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ افغان حکومت اپنی روش کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے غیر سنجیدگی کا مطاہرہ کر رہی ہے۔ پاکستان کا روزِ اول سے یہی مؤقف رہا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔
دعوے اور حقائق
اقتصادی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے دعویٰ کیا کہ سرحدی بندش کے باوجود افغانستان نے استحکام کو برقرار رکھا ہے اور تجارت و روزگار کے نئے مواقع تلاش کر کے مسائل کا مقابلہ کیا ہے۔ تاہم افغان وزیرِ خارجہ کے دعوے کے برعکس عالمی رپورٹس یہ کہتی ہیں کہ لاکھوں افغان شہری غذائی قلت، بے روزگاری اور بدامنی، بے جا سختیوں کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہیں جو افغانستان میں موجودہ معاشی مشکلات کو واضح کرتا ہے۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے منشیات کے مسئلے پر کہا کہ افغانستان میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی عائد ہے لیکن خطے میں منشیات کی ترسیل و استعمال کے معاملے پر انہوں نے ذمہ داری دوسرے ممالک پر ڈالی۔ جبکہ اس کے برعکس اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان اب بھی عالمی سطح پر منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کا مرکز ہے۔
امریکی و چینی شہریوں کی ہلاکت
وائٹ ہاؤس کے قریب دو امریکی فوجیوں کے قتل کے واقعے پر امیر خان متقی نے اس عمل کو انفرادی عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آور نے امریکہ میں تربیت حاصل کی تھی جو غیرقانونی طریقے سے افغانستان آیا تھا۔ انہون اس مسئلے پر مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام اس وقت نہین ہوسکتی جب تک امریکی انتظامیہ افغان شہریوں کے لیے قونصلر خدمات بحال نہیں کرتی۔
اسی طرح پانچ چینی شہریوں کی ہلاک پر گفتگو کرتے ہوئے امیر خان متقی نے کہا کہ افغان۔ تاجک سرحد پر چینی شہریوں کی ہلاک کے معاملے میں تحقیقات جاری ہیں اور افغان حکومت چین اور تاجکستان حکام کے ساتھ مل کر اس واقعے کے مرکزی کرداروں کے خلاف گھیرا تنگ کرے گی۔
صحافیوں سے گفتگو کے اختتام پر امیر خان متقی نے پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسائل کے حل کے لیے صبر، سفارتکاری اور حکمت عملی سے کام لیں۔ لیکن انہوں نے اپنی تمام تر گفتگو میں افغانستان میں موجود دہشت گروہوں کی موجودگی کے حوالہ کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی جو خطے کے امن کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔
دیکھیں: زلمے خلیل زاد کو افغان انٹیلیجنس ایجنسی نے پروپیگنڈا پھیلانے کیلئے استعمال کیا؛ امر اللہ صالح