امریکی ایوانِ نمائندگان کے 44 ڈیموکریٹ ارکان نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کو خط لکھتے ہوئے پاکستان کے سینئر حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان ارکان نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ مبینہ طور پر “ٹرانس نیشنل ریپریشن” اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔
یہ خط کانگریس رکن پرمیلا جیا پال اور گریگ کیسر کی جانب سے مرتب کیا گیا جس پر مسلم اراکینِ کانگریس الہان عمر اور راشدہ طلیب سمیت متعدد ارکان کے دستخط موجود ہیں۔
قانون سازوں کے مطابق امریکہ میں موجود پاکستانی نژاد شہریوں اور ناقدین کو ان کے سیاسی خیالات کی وجہ سے ہراسانی، دھمکیوں اور ان کے خاندانوں پر دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خط میں الزام لگایا گیا کہ پاکستان میں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، میڈیا پر دباؤ بڑھایا گیا ہے اور سوشل میڈیا اظہار پر سزائیں دی جا رہی ہیں۔
ارکانِ کانگریس نے صحافی احمد نورانی کے اہل خانہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا بھی حوالہ دیا اور دعویٰ کیا کہ پاکستانی ریاستی ادارے اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت استعمال کر رہے ہیں۔
خط میں 2024 کے انتخابات میں مبینہ بےضابطگیوں کا ذکر کرتے ہوئے امریکا سے مطالبہ کیا گیا کہ ذمہ دار حکام پر ویزا پابندیاں، اثاثہ جات منجمد کرنے اور گلوبل میگنسکی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی سابق وزیرِاعظم عمران خان اور دیگر سیاسی شخصیات کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
ارکان نے سیکریٹری آف اسٹیٹ سے 17 دسمبر 2025 تک جواب طلب کیا ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد میں ماہرین کے مطابق پاکستان ان الزامات کو بے بنیاد اور “سیاسی پروپیگنڈا” قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے اور اپنے عدالتی و قانونی نظام کے تحت فیصلے کرتا ہے۔ انسانی حقوق کے احترام اور اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے واضح اقدامات موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق امریکی کانگریس کے بعض ارکان کو گمراہ کن معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو ایسے غیر ضروری بیانیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے
پاکستانی ماہرین نے واضح کیا کہ داخلی معاملات پر بیرونی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا اور ریاست مخالف عناصر کے خلاف کارروائیاں ملکی آئین و قانون کے مطابق جاری رہیں گی۔