پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں ترک انٹیلی جنس اور افغان جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے مشترکہ آپریشن کے دوران داعش خراسان کے ایک اہم کمانڈر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والا شدت پسند ترک نژاد بتایا جا رہا ہے جسے بعد ازاں ترکی منتقل کر دیا گیا۔ ترک سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کے مطابق گرفتار ملزم کی شناخت مہمت گورین کے نام سے ہوئی ہے، جو داعش کے نام نہاد اعلیٰ رہنماؤں میں شمار کیا جاتا تھا۔
ترک حکام کے مطابق یہ کارروائی ایک مشترکہ انٹیلی جنس آپریشن کے تحت عمل میں لائی گئی، جس میں ترک انٹیلی جنس ادارے نے افغان جی ڈی آئی کے ساتھ قریبی تعاون کیا۔ مہمت گورین کو پاکستان۔افغانستان سرحدی پٹی میں ٹریس کر کے گرفتار کیا گیا، جہاں وہ مبینہ طور پر داعش خراسان کے لیے نیٹ ورکنگ، بھرتی اور آپریشنل منصوبہ بندی میں مصروف تھا۔ گرفتاری کے بعد اسے سخت سیکیورٹی میں ترکی منتقل کیا گیا ہے، جہاں اس سے مزید تفتیش جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ واقعہ خطے میں داعش خراسان کے خلاف جاری انٹیلی جنس دباؤ میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار کمانڈر کے قبضے سے ڈیجیٹل شواہد اور رابطوں کی تفصیلات بھی ملی ہیں، جن کی بنیاد پر مزید گرفتاریوں اور نیٹ ورک کے انکشافات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
Mehmet Goren, one of the so-called leaders of Daesh terror group, captured in Afghanistan-Pakistan region by Turkish intelligence, brought to Türkiye – AA pic.twitter.com/63mKXIvw18
— TRT World (@trtworld) December 22, 2025
اہم بات یہ ہے کہ یہ حالیہ مہینوں میں ترک انٹیلی جنس کے تعاون سے ہونے والی دوسری بڑی گرفتاری بتائی جا رہی ہے، جس میں پاکستان کا بالواسطہ کردار زیرِ بحث ہے۔ اس سے قبل بھی ایک ہائی پروفائل داعش سے وابستہ فرد کی گرفتاری سامنے آ چکی ہے، جس نے علاقائی اور عالمی سطح پر توجہ حاصل کی تھی۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق دونوں کیسز ایک وسیع تر انٹیلی جنس تعاون کا حصہ ہیں، جس کا مقصد سرحد پار دہشت گرد نیٹ ورکس کو توڑنا ہے۔
ماہر افغان امور سلمان جاوید نے ایچ ٹی این اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ کاروائی ظاہر کرتی ہے کہ داعش اب بھی افغانستان میں باقاعدہ سرگرم ہے اور بھرتیوں سے لے کر کاروائیوں تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ داعش اب بھی نہ صرف خطے اور عالمی امن کیلئے خطرہ ہے بلکہ دیگر کئی شدت پسند تنظیموں کی طرح افغانستان کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے۔
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق ترک انٹیلی جنس، افغان اداروں اور خطے کے دیگر ممالک کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون داعش خراسان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس کیس سے متعلق مزید اہم تفصیلات اور ممکنہ تصاویر آئندہ دنوں میں سامنے لائی جائیں گی، جو داعش کے علاقائی نیٹ ورک کی اصل ساخت کو مزید واضح کر سکتی ہیں۔