گزشتہ چھ ماہ کے دوران کابل میں کاروبار سے وابستہ افراد کا رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق کابل کے 70 سے زائد کاروباری افراد گزشتہ چھ ماہ کے دوران اغواء ہو چکے ہیں۔ ان کے اہل خانہ خوف کے مارے خاموش ہیں کیونکہ طالبان حکومت کے خلاف بات کرنا “شریعت کی خلاف ورزی” قرار دیا جاتا ہے۔ اغوا کے بیشتر واقعات طالبان سے منسلک باغی گروہوں کی جانب سے کیے گئے ہیں جو غیر طالبان کاروباریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ خفیہ دستاویزات کے مطابق کابل میں رجسٹرڈ جرائم کی مجموعی تعداد 2,000 تک پہنچ چکی ہے۔
افغانستان میں بڑھتے ہوئے اغواء کیسز
افغانستان کے گرین ٹرینڈ انفارمیشن یونٹ کے مطابق 1404 ہجری شمسی کے پہلے چھ ماہ میں کابل میں 100 قتل، 16 مسلح ڈکیتیاں، 45 خودکشیاں، 16 تشدد کے واقعات، 70 اغوا، 12 دھماکے، 987 چوریاں، 11 جنسی زیادتی کے کیس اور 10 ہینڈ گرینیڈ حملے درج ہوئے۔ ان تمام واقعات کی مجموعی تعداد 1,784 بنتی ہے۔
ماہرین کے مطابق مسئلہ صرف اعداد و شمار نہیں ہے بلکہ ان کے پیچھے چھپی ہوئی منطق ہے۔ طالبان حکومت نہ صرف امن و امان کی ذمہ داری اٹھاتی ہے بلکہ یہ بھی طے کرتی ہے کہ کون سا عمل جرم ہے اور کون سا نہیں۔ اس طرح یہ اعداد و شمار حقیقت کے عکس کے بجائے بیانیہ سازی کا آلہ بن جاتے ہیں۔
CRIME IN SILENCE:
— Amrullah Saleh (@AmrullahSaleh2) December 20, 2025
70 unresolved kidnappings of business owners in 6 months in Kabul alone. The victims can't speak out. Speaking out is considered anti-Sharia. In most cases, the kidnappers are rogue Taliban who target non-Taliban businesses. Total crimes registered in… https://t.co/CIiKLgPxKV
جمہوری دور بمقابلہ طالبان دور
جمہوری دور میں اغوا کے واقعات کی واضح شناخت ہوتی تھی اور متاثرہ خاندان عدالت تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ آج کل کسی اغوا شدہ کا نام لینا بھی طالبان کے غصے کا سبب بن سکتا ہے، جو اسے “امارت کو بدنام کرنے” کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ نتیجتاً بے شمار اغوا کیس کبھی رجسٹرڈ ہی نہیں ہوتے۔
مقامی افراد کی گواہی
کابل کے مقامی بافراد اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم گھر میں تھے کہ اچانک گولیوں کی آواز سنائی دی۔ دس بیس منٹ بعد میں نے اپنے دو چھوٹے بچوں کی لاشیں دیکھیں۔ اسی طرح ایک اور شہری کا کہنا ہے کہ آج کابل کے کارتے چار علاقے میں دن یا رات کو کوئی سیکیورٹی نہیں ہوتی جس بنا پر ڈکیتیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان مختلف بہانوں سے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ کابل اور پورے افغانستان میں بدامنی کی اصل وجہ خود طالبان ہیں۔
طالبان کی اپنی رپورٹس میں بھی مسلح ڈکیتیاں اور دیگر جرائم درج ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ جرائم کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آزاد میڈیا پر پابندی اور معاشرے پر کنٹرول کی وجہ سے حقیقی صورت حال عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔
خودکشی اور گھر سے فرار کے واقعات کابل میں بڑھتے نفسیاتی اور سماجی دباؤ کی واضح علامت ہیں، جو سیاسی پابندیوں، سماجی جبر اور معاشی ناامیدی کے باعث جنم لے رہے ہیں۔
دیکھیں: ادویات، سفارت کاری اور عوامی صحت: افغانستان کا نیا مگر متنازع راستہ