حالیہ دنوں میں پاک افغان تعلقات میں اہم پیش رفت دیکھی گئی ہے اور دونوں ممالک کے اہم ذمہ داران کی اہم ملاقاتیں اس بات کا مظہر ہیں کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کرنے میں سنجیدہ ہے۔ کیونکہ خطے کا امن اسی چیز سے مشروط ہے کہ کوئی بھی اپنی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
پاکستان کے عدم استحکام و بد امنی کی وجوہات پر نظر دوڑائی جائے تو اہم وجہ یہی ظاہر ہوتی ہیکہ ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں کے ارتکاب کے لیے افغان سرزمین و بارڈر استعمال کرتی ہے۔ لہذا افغان طالبان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی وہ اپنی سرزمین کو دہشتگردی کیلئے استعمال ہونے سے روکنے میں سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائے۔
پاکستان نے ماضی قریب میں جب بھی یہ مطالبہ کیا تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مگر حالیہ پیش رفت اور دونوں جانب کی سنجیدگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ افغان حکام تحریک طالبان پاکستان کے خلاف عملی اقدامات اُٹھاتے ہوئے انکے سخت کاروائی عمل میں لائیں گے جو خطے و ہمسایہ ممالک کے لیے امن کا باعث بنے گا۔
پاکسستان کی سفارتی کوششیں اور نتائج
پاکستان دہائیوں سے یہ مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے اور یہ مطالبہ ریاستِ پاکستان نے ہر سطح پر کیا ہے۔ چاہے بین الاقوامی فورم ہی کیوں نہ ہو مگر کوئی خاطر خواہ اور تسلی بخش کاروائی نہ ہوسکی۔ لیکن پاکستان نے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھیں۔ طالبان حکام کی سنجیدگی بھی پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔
طالبان کی سنجیدگی امن کی ضامن
افغان طالبان کی سنجیدگی اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ اب خطہ امن و استحکام کا گہوارہ بنے گا۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ ماضی میں دہشتگردانہ کاروائیوں کرنے میں تحریک طالبان پاکستان آزاد تھی کوئی روک ٹوک اور خطرہ نہیں تھا مگر اب افغان حکام کی سنجیدگی یہ بات ظاہر کرتی ہیکہ مستقبل قریب میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اٹھاتے نظر آئے گی اور نتیجتاً صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے خطے پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔
دیکھیں: شمالی افغانستان میں داعش کی موجودگی نے خطے میں سنگین خطرے کی نشاندہی کر دی