طالبان حکومت کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حالیہ سال اپریل کے ماہ میں افغانستان کی وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور انٹیلیجنس کے محکموں سمیت اہم اداروں سے بیس فیصد ملازمین کو فارغ کردیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ 90,000 سے زائد تعلیم سے وابستہ عملے کو بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔ حکام نے بجٹ اور وسائل کی قلت کو اہم وجہ قرار دیتے ہوئےکہا کہ ہمیں اس بناء پر یہ فیصلہ کرنا پڑا۔
عوامی ردّ عمل
دوسری طرف عوام کی جناب سے شدید ردّ عمل دیکھنے کو مل رہا ہے، عوام میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عوام کی جانب سے کہا گیا ہے ملازمین کو نہ تو تنخواہیں دی گئی ہیں اور نہ ہی مذکورہ فیصلے کی کوئی اہم وجہ بتائی گئی ہے بلکہ مبہم طور پر افغان حکام کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی اس فیصلے کو نسلی و سیاسی بنیاد قرار دیا ہے۔
طالبان گروہوں میں مایوسی
مذکورہ فیصلے کے بعد طالبان کے اپنے گروہوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ تنخواہوں کی عدمِ ادائیگی، ملازمین کی برطرفی، قبائلی تعصب اور گروپ بندی نے انکے اندر اختلافات کو بڑھادیا ہے۔ نتیجتاً افغان حکام کے عدمِ اتفاق کے مواقع بڑھتے جارہے ہیں۔
چونکہ اس وقت امارتِ اسلامیہ افغانستان اندرونی اختالافات کا شکار ہے، اس لیے یہ صورتحال اس اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ افغانستان میں ایک جامع سیاسی حل ناگزیر ہے۔ وگرنہ افغانستان ایک مرتبہ پھر ماضی کی چل پڑے گا۔
افغانستان کے حالیہ حالات تنخواہوں کی عدمِ ادائیگی، ملازمین کی برطرفی، قبائلی تعصب یہ تمام چیزیں افغان ریاست کو تو متاثر کر ہی رہی ہیں۔ لیکن اگر افغان ریاست مزید عدمِ استحکام کا شکار ہوتی ہے تو اس اثرات ہمسایہ ملک پاکستان پر گہرے اثرات مرتب کرسکتاہے۔
دیکھیں: شمالی افغانستان میں عالمی دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیاں خطے کے لیے سنگین خطرہ