جنوبی اور وسطی ایشیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں افغانستان ایک مرتبہ پھر خطے کی طاقت کے توازن کو ازسرِ نو ترتیب دے رہا ہے۔ وہ افغانستان جو کبھی پاکستان کے اثر و رسوخ میں سمجھا جاتا تھا، اب روس، ایران، قطر اور وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے درمیان ایک نئے سفارتی و سیاسی توازن کا مرکز بن چکا ہے۔
طالبان ان تمام ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو اس انداز سے دیکھ رہے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ خودمختاری، علاقائی اہمیت اور سفارتی فائدہ مل سکے۔ یہی وہ صورتحال ہے جس میں پاکستان کا تاریخی اثر و رسوخ کم ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اسلام آباد کو کابل کے فیصلوں کے براہ راست نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تنہائی سے علاقائی تزویراتی اہمیت تک
طالبان اگرچہ اقوامِ متحدہ اور مغربی دنیا سے رسمی قبولیت حاصل نہیں کرسکے، مگر خطے کی بڑی طاقتیں اب انہیں حقیقتِ امر کے طور پر قبول کر چکی ہیں۔ روس کی جانب سے 2025 میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ایک بڑا موڑ ثابت ہوا، جس کے بعد ماسکو نے سیکورٹی، تجارت اور انسدادِ دہشت گردی کے معاملات میں کابل سے براہِ راست رابطے بڑھا دیے۔ روس کا مقصد وسطی ایشیا کی سلامتی، داعش خراسان کے خطرے کا مقابلہ اور جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان دہشت گردی کے خلاف محدود مگر عملی تعاون سامنے آچکا ہے، جہاں تینوں فریق طالبان، روس اور پاکستان داعش کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے معلومات کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔ مگر روس کا افغانستان کے ساتھ براہِ راست تعلق اس بات کا ثبوت ہے کہ اب اسلام آباد واحد دروازہ نہیں رہا جس کے ذریعے عالمی طاقتیں کابل سے رابطہ کرتی تھیں۔ ماسکو اپنے مفادات کے مطابق آزادانہ روابط قائم کر رہا ہے، جس سے پاکستان کا تاریخی کردار محدود ہوتا جا رہا ہے۔
ایران اور قطر کا بڑھتا ہوا کردار
ایران نے افغانستان کی معیشت میں نئی راہیں کھول کر کابل پر اپنا اثر بڑھایا ہے۔ چاہ بہار کے ذریعے تجارت، توانائی کی فراہمی اور سرحدی نظم و ضبط کے اقدامات نے کابل کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ تجارت کے لیے پاکستان پر مکمل انحصار ختم کرسکے۔ یہ صورتحال پاکستان کی اس معاشی قوت کو متاثر کر رہی ہے جو وہ ہمیشہ افغان تجارت کے ذریعے حاصل کرتا تھا۔
قطر کی اہمیت بھی افغانستان کے لیے برقرار ہے۔ دوحہ مذاکرات سے لے کر امریکہ اور طالبان کے درمیان رابطے تک، قطر کا کردار سفارتی ضمانت دینے والے ملک کے طور پر مضبوط ہوا ہے۔ طالبان کے لیے قطر ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو انہیں عالمی سطح پر گفتگو کے لیے آواز بھی دیتا ہے اور ان کی سیاسی پوزیشن کو بھی تقویت دیتا ہے۔
وسطی ایشیائی ممالک کا ابھرتا ہوا کردار
کابل کی حکمتِ عملی میں سب سے نمایاں تبدیلی وسطی ایشیائی ریاستوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت ہے۔ ازبکستان کا مقصد علاقائی تجارت اور امن ہے؛ تاجکستان بارڈر سکیورٹی اور ہائیڈرو پاور تعاون چاہتا ہے؛ ترکمانستان توانائی کے منصوبے آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ طالبان ان سب سے الگ فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ وہی “کثیر سمتی” حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے وہ ایک ریاست پر زیادہ انحصار کرنے کے بجائے کئی ریاستوں کے درمیان توازن قائم رکھ کر اپنی خودمختاری بڑھا رہے ہیں۔
اس کثیر جہتی ماحول میں طالبان کا رویہ مکمل طور پر مفاداتی اور حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔ وہ ہر ملک سے وہی فائدہ اٹھا رہے ہیں جو ان کے مقاصد کے لیے موزوں ہو، بغیر کسی مستقل وابستگی کے۔
پاکستان کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات
خطے میں بدلتی ہوئی طاقت کے اس کھیل میں پاکستان کے لیے صورتحال پیچیدہ ہو رہی ہے۔ کابل کی جانب سے ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں دینا، استنبول بات چیت میں پاکستان کو مطلوبہ سیکورٹی کی یقین دہانی سے انکار اور علاقائی قوتوں سے طالبان کے براہِ راست روابط-یہ تمام عوامل پاکستان کی سلامتی پر براہِ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔
تجارت کے راستے بھی اب پاکستان کے ذریعے نہیں گزر رہے۔ ایران اور وسطی ایشیا کی جانب افغان جھکاؤ نے اسلام آباد کی معاشی طاقت کو بھی کمزور کیا ہے۔ اس وقت پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے افغانستان کے ساتھ پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لینا پڑ رہا ہے۔
ایک خطرناک سوال
پاکستان کے معروف تجزیہ کار ڈاکٹر مکمل شاہ کے مطابق:
“پاکستان کا تاریخی اثر کم ہو چکا ہے۔ اب اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطے کی نئی حقیقتوں کے مطابق اپنی حکمتِ عملی کو ازسرِ نو تشکیل دے، ورنہ اسے معاشی اور سیکورٹی دونوں محاذوں پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔”
حقیقت یہ ہے کہ طالبان اب ایک ایسے افغانستان کی نمائندگی کرتے ہیں جو متعدد طاقتوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ پاکستان پر انحصار کیے بغیر اپنے سفارتی اور علاقائی قدم جما رہے ہیں۔ یہ صورتحال اسلام آباد کے لیے نہ صرف ایک اسٹریٹجک چیلنج ہے بلکہ ایک انتباہ بھی کہ خطہ تبدیل ہو چکا ہے اور نئی حقیقتوں کی روشنی میں پالیسی بھی تبدیل کرنا ہوگی۔
پاکستان کے سامنے اہم سوال یہ ہے کہ وہ افغانستان کی اس نئی، خودمختار اور کثیر جہتی پالیسی کا مقابلہ کیسے کرے؟ کیا اسلام آباد اپنی سکیورٹی، معیشت اور علاقائی اثر و رسوخ کا دفاع کر پائے گا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات آنے والے برسوں میں پاکستان کی پوزیشن کا تعین کریں گےاور شاید پورے خطے کی سیاست پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
دیکھیں: پاک افغان بارڈر بندش سے دوطرفہ تجارت میں نمایاں کمی، اکتوبر میں 54 فیصد گراوٹ ریکارڈ