انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل ایک بار پھر تنقید کی زد میں۔ 9 ستمبر کی ایک رپورٹ میں پاکستان میں وسیع پیمانے پر فون ٹیپنگ اور ایک سخت قومی ویب فائر وال کے وجود کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
پاکستانی حکام اور تجزیہ کاروں نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اب غیر جانبدار نہیں رہی، بلکہ ترقی پذیر ممالک کو بدنام کرنے اور مغربی ممالک کے مظالم پر خاموش رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جبکہ ایمنسٹی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے خود کو ایک غیر جانبدار، اراکین کی عطیات سے چلنے والی تحریک قرار دیا ہے جس کے دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ حامی ہیں۔
تحفظات کی وجہ؟
ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ادارے “لا فل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم” کے ذریعے سالانہ کم از کم 40 لاکھ موبائل فون کالز پر نظر رکھ سکتے ہیں اور 20 لاکھ انٹرنیٹ سیشنز کو حقیقی وقت میں بلاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ نتائج ریگولیٹری دستاویزات اور 2024 میں دائر ایک عدالتی درخواست پر مبنی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی معدنی ذرائع پر انحصار کرتی ہے اور ریاستی مؤقف کو شامل یا تصدیق کیے بغیر ہی تحقیقات شائع کر دیتی ہے۔
یہ صورتحال محض نگرانی تک محدود نہیں ہے بلکہ ایمنسٹی کی پاکستان سے متعلق دیگر تحقیقات جیسے مزدوروں کے حقوق اور امتیازی سلوک کے معاملات پر بھی یہ سوالات اُٹھائے جارہے ہیں کہ یہ ملکی مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے جبکہ مغربی ممالک کی خلاف ورزیوں پر ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دیتی۔
گواہی کے بدلے مالی فوائد پیشکش: عینی شاہد
ایک اور پہلو ایمنسٹی کے تحقیقاتی طریقہ کار پر اٹھائے گئے سوالات ہیں۔ اسلام آباد کے ایک پالیسی مشیر نے ایچ ٹی این کو بتایا کہ ایمنسٹی ایک واچ ڈاگ ہے، کوئی خبریں چلانے والا چینل نہیں بلکہ حقائق کے بجائے اس کی شہرت پر زیاہ توجہ ہے۔
اس بات کو مزید تقویت شمالی پاکستان کے ایک علاقے کے رہائشی نادر (فرضی نام) کے دعوے سے ملتی ہے جن کا کہنا ہے کہ انہیں مقامی حکومت کے خلاف احتجاج کے بعد دو افراد نے رابطہ کیا جو خود کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ بتا رہے تھے۔
نادر کہتا ہے پہلے انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ ایک کاغذ پر دستخط کر دیں جس میں بدسلوکی کا الزام ہو تو، اس کے بدلے ہم آپکو 1,000 امریکی ڈالر دیں گے۔ لیکن جب میں نے انکار کیا تو انہوں نے پیشکش بڑھا کر 5,000 ڈالر کر دی یہ شرط لگاتے ہوئے کہ آپ ویڈیو بیان ریکارڈ کراؤ نیز اسی طرح کی کہانیاں رکھنے والے دو مزید افراد کو بھِ لے کر آؤ۔
ایچ ٹی این نادر کے اس دعوے یا ان ثالثوں کی شناخت کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔ ایمنسٹی اپنی سرکاری پالیسیوں میں گواہی کے بدلے کسی بھی قسم کی مالی ادائیگی سے انکار کرتی ہے۔ تنظیم کے مطابق وہ عینی شاہدین کے بیانات کی تصدیق سیٹلائٹ تصاویر، آزادانہ تحقیقات کے ذریعے شواہد اکھٹے کرتی ہے۔
ناقدین کے اعتراضات؟
ناقدین کے مطابق ایمنسٹی کا رویہ غیر جانبدار انسانی حقوق کی نگرانی سے ہٹ کر ایک نظریاتی بیانیہ تشکیل دے رہا ہے۔ ان کے خدشات درج ذیل ہیں:
رپورٹس میں ریاستی مؤقف کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
غیر مصدقہ ذرائع پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔
یہی رپورٹس بعد ازاں بین الاقوامی پابندیوں اور سفارتی دباؤ کی بنیاد بن جاتی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایمنسٹی ترقی پذیر ممالک کے تنازعات اور کمزور اداروں پر تو سخت تنقید کرتی ہے لیکن مغربی ممالک کی فوجی کارروائیوں (جیسے عراق، افغانستان، لیبیا یا غزہ) کے حوالے سے اس کی رپورٹنگ نسبتاً کمزور یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
جبکہ ایمنسٹی ان تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے اور زور دیتی ہے کہ اس کی سالانہ رپورٹس دنیا بھر میں ہونے والی خلاف ورزیوں کا یکساں احاطہ کرتی ہیں۔
ایک اور سنگین الزام یہ ہے کہ ایمنسٹی ان افراد کو بیرون ملک نقل مکانی میں مدد فراہم کرتی ہے جو اپنے ملک میں فوجداری مقدمات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ یورپ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں واقعی خطرے سے دوچار کارکنوں کے لیے وقتی پناہ گاہوں کے حق میں ہیں لیکن ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ وہ انتہا پسندی کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کرتی۔
ایمنسٹی کا مؤقف اور مالیاتی شفافیت
ایمنسٹی جو عوامی عطیات سے چلتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں 17 لاکھ سے زائد افراد نے اوسطاً €13.30 ماہانہ عطیہ دیا۔۔ اس مالیاتی ڈھانچے کو وہ اپنی تحقیق میں غیر جانبداری کی ضمانت قرار دیتی ہے۔
تحقیقی طریقہ کار کے حوالے سے ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ وہ گواہوں کے بیانات کو ڈیجیٹل فارنزک، سیٹلائٹ تجزیے، جیو لوکیشن اور کراؤڈ سورسڈ تصدیق کے ساتھ ملا کر استعمال کرتی ہے تاکہ کسی ایک چیز پر انحصار نہ رہے۔
تنظیم کے مطابق اس کی رپورٹنگ عالمی معیار کے مطابق ہے۔ 2022/23 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی نے 156 ممالک میں سے 85 ممالک میں مظاہرین کے خلاف غیر قانونی طاقت کے استعمال کے معتبر و مصدقہ الزامات درج کیے اور کم از کم 20 ممالک میں انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کے ثبوت بھی مرتب کیے۔
دوہزار انیس کا بحران: تنظیمی ساکھ کو نقصان
ایمنسٹی اندرونی طور پر بھی بحرانوں کا شکار ہے۔ 2018 میں تنظیم کے سینئر محقق گائتن موتو اور انٹرن روزالِن میگریگر کی خودکشی کے بعد جاری ہونے والی ایک آزاد رپورٹ میں عملے کے کئی اراکین نے تنظیم کے کام کو خطرناک قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 39% ملازمین کو ایمنسٹی میں کام کی وجہ سے جسمانی یا ذہنی مسائل کا سامنا تھا۔ اس واقعے کے بعد تنظیم کی اعلیٰ قیادت نے استعفیٰ دیا تھا اور اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔
اسلام آباد کے ایک تجزیہ کار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تنظیم کود انسانی ہمدردی کے بنیادی اصولوں پر پورا نہیں اترتی تو پھر وہ رپورٹس کس قدر قابل اعتبار ہونگی جن کے شواہد کی آزادانہ تصدیق بھی ناممکن ہو؟
یہ واقعہ ایک بڑے سوال کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیموں کا مستقبل کیا ہے؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی معتبر تنظیموں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تحقیقی طریقہ کار میں شفافیت لاتے ہوئے تمام فریقین کے مؤقف کو شامل کریں نیز اپنے اندرونی معاملات بھی درست رکھیں۔ صرف اس صورت میں ہی وہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے اپنے بنیادی مشن میں مؤثر اور قابل اعتماد ثابت ہو سکتی ہیں۔
دیکھیں: سیکیورٹی اداروں کا مشترکہ آپریشن؛ ٹی ٹی پی کے تین دہشت گرد ہلاک