آسٹریلیا میں ہنوکا تقریب پر ہونے والے المناک حملے کے بعد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس واقعے کو مسلمانوں یا مہاجرین کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرنا نہ صرف حقائق کے منافی ہے بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔ واضح رہے کہ یہ حملہ چند انتہا پسند عناصر کا عمل تھا مگر پورے مسلمان معاشرے کو اس سے منسلک کرنا غیر منصفانہ عمل ہے۔
امریکی سابق انٹیلی جنس ڈائریکٹر ٹلسی گیبرڈ کے اسلاموفوبک بیانات کے بعد سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف مخالفانہ رویوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسلام کو انتہا پسندی کے ساتھ منسلک کرنا خود ایک انتہا پسندانہ سوچ ہے جو معاشرے میں تقسیم وتفریق پیدا کرتی ہے۔
The tragic Islamist terror attack against those at a Hanukkah celebration in Australia sadly should not come as a surprise to anyone. This is the direct result of the massive influx of Islamists to Australia. Their goal is not only the Islamization of Australia but the entire…
— Tulsi Gabbard 🌺 (@TulsiGabbard) December 16, 2025
اسی دوران ٹیکساس میں صیہونی کارکن جیک لینگ کی زیرِقیادت قرآن مجید کی بے حرمتی پر مبنی ایک ریلی بھی منعقد ہوئی، جسے ماہرین نے اسلاموفوبک بیانیے کو ہوا دینے والا اقدام قرار دیا۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی ودہشت گردی کسی ایک مذہب یا گروہ تک محدود یا منسلک نہیں ہوتی بلکہ مسلم کمیونٹیز خود بھی اکثر نفرت انگیز اور دہشت گردانہ جرائم کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی و علاقائی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جانا چاہیے نہ کہ کسی مذہبی ولسانی گروہ کو نشانہ بنایا جائے۔
تجزیہ کاروں نے عالمی برادری اور حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلاموفوبک بیانات اور اقدامات کے خلاف واضح موقف اپنائیں تاکہ معاشرتی ہم آہنگی اور بین المذہبی رواداری کو تحفظ مل سکے۔