آزاد کشمیر کی حالیہ صورتحال ایک بار پھر یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ قیادت کس سمت لے جا رہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ وفاقی حکومت سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ پرامن حل کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔ کمیٹی میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی شمولیت نہ صرف قومی اتفاق رائے کی عکاسی کرتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ریاستی سطح پر ہر قوت امن، بات چیت اور مصالحت کو واحد راستہ سمجھ رہی ہے۔
ایسے میں عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کے پاس ایک سنہری موقع تھا کہ وہ اپنی عوامی حمایت کو مثبت سمت میں لے جاتی اور آزاد کشمیر کے عوام کے حقیقی نمائندے بن کر ابھرتی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے فیصلے اور بیانات اس حقیقت کے برعکس ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنی سیاسی حکمت عملی کو کشمیری عوام کے مسائل کے حل کے بجائے محاذ آرائی کی طرف موڑ دیا ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کے قیام کے بعد بھی اگر قیادت ہڑتال اور احتجاج پر اصرار کرے تو اس کے نتائج کسی طور عوام کے حق میں نہیں جا سکتے۔ عوام کے مسائل کا حل سڑکوں پر نعرے بازی یا غیر معینہ احتجاج میں نہیں بلکہ سنجیدہ مذاکرات اور پالیسی سطح کے فیصلوں میں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے اس راستے کو ترجیح نہیں دی بلکہ ایک ایسا رویہ اپنایا ہے جو امن اور سکون کے بجائے مزید انتشار کو جنم دیتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کوئی ایک شخص یا خاندان کی میراث نہیں بلکہ یہ ایک عوامی پلیٹ فارم ہے۔ اس کے فیصلوں کی قیمت پورے علاقے کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ جب قیادت ذاتی انا یا سیاسی فوائد کے لیے ریاستی سطح پر مذاکرات سے گریز کرتی ہے تو وہ صرف حکومت کی مخالفت نہیں کر رہی بلکہ براہِ راست کشمیری کاز کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ یہ کاز وہ ہے جس کے لیے مقبوضہ کشمیر کی تین نسلیں اپنی جانوں، عزتوں اور جوانیوں کی قربانیاں دے چکی ہیں۔ ایسے میں آزاد کشمیر میں بیٹھ کر محض ہڑتالوں اور توڑ پھوڑ کی سیاست کرنا دراصل ان قربانیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔
یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ ایک لیک شدہ میمو میں واضح ہو چکا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی صفوں میں کچھ عناصر ایسے موجود ہیں جنہیں بھارتی اہلکاروں نے بدامنی پھیلانے کی ہدایات دی تھیں۔ اگر قیادت اس نکتے کو نظر انداز کرتی ہے اور پھر بھی ہڑتالوں پر اصرار کرتی ہے تو وہ عوام کو ایک ایسے راستے پر دھکیل رہی ہے جو غیر ملکی ایجنڈوں کے مطابق ہے، نہ کہ کشمیری عوام کی حقیقی خواہشات کے مطابق۔ قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ غیر ملکی اسکرپٹ پر عمل کرنا مزاحمت نہیں بلکہ غداری ہے۔
حکومت نے قومی سطح پر قدم بڑھایا، اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی، تمام بڑی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا اور مکالمے کے دروازے کھول دیے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ریاستی سطح پر انتشار کی سیاست نہیں بلکہ امن اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اگر عوامی ایکشن کمیٹی قیادت مذاکراتی عمل سے گریز کرتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ افراتفری سے اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانا چاہتی ہے۔
کشمیری عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی اصل ضرورت کیا ہے؟ کیا انہیں مستقل ہڑتالیں اور بندشیں درکار ہیں یا روزگار، تعلیم، صحت اور سلامتی؟ عوام کی اصل ترجیح یقینا ایک پرامن اور خوشحال زندگی ہے۔ یہ زندگی صرف اسی وقت ممکن ہے جب قیادت بالغ نظری کا مظاہرہ کرے، غیر ملکی ایجنڈوں سے دور رہے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کو یاد رکھنا چاہیے کہ احتجاج اور ہڑتال کی سیاست وقتی فائدہ دے سکتی ہے لیکن اس کے نتائج طویل المدتی طور پر عوامی نقصان کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ دکانیں بند کرنا، تعلیمی ادارے ویران کرنا اور عوام کو سڑکوں پر دھکیل دینا کسی جدوجہد کا حل نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ عمل عوام کے اندر مایوسی اور بے یقینی کو بڑھاتا ہے۔
اس وقت فیصلہ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ حقیقت میں کشمیری عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے تو مذاکرات کے دروازے پر دستک دے اور پرامن حل کی راہ اختیار کرے۔ اگر وہ پھر بھی ہڑتال اور محاذ آرائی پر قائم رہتی ہے تو تاریخ اسے کشمیری عوام کی نمائندہ نہیں بلکہ ان کے کاز سے غداری کرنے والی قیادت کے طور پر یاد کرے گی۔
امید اب بھی باقی ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما اپنی روش بدلیں، غیر ملکی اشاروں پر چلنے کے بجائے کشمیری عوام کے دکھ درد کو سمجھیں اور سنجیدہ مذاکرات کا حصہ بنیں۔ یہی راستہ ہے جو آزاد کشمیر میں سکون، خوشحالی اور عوامی سلامتی کا ضامن بن سکتا ہے۔ انتشار اور بدامنی کا راستہ صرف نقصان دے سکتا ہے، جبکہ مکالمے اور مفاہمت کا راستہ کشمیری عوام کے مستقبل کو سنوار سکتا ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ قیادت اپنی ذمہ داری پہچانے، عوام کے حقیقی نمائندے بنے اور آنے والی نسلوں کے لیے امید، امن اور سکون کی بنیاد رکھے۔
دیکھیں: آزاد کشمیر میں احتجاجی مظاہرے تیسرے روز بھی جاری، 3 افراد کی ہلاکت کی اطلاعات