پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے، تاہم بلوچستان کے مسائل کا حل صرف سیاسی اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن بلوچستان کا حل سیاسی ہے۔ فیصلے ایسے ہونے چاہئیں جو عوام کے حقیقی فائدے کے لیے ہوں۔‘‘
دہشت گردی اور خطے کی صورتحال
بلاول بھٹو نے کہا کہ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان کی افغانستان واپسی کے بعد سے پاکستان میں سرحد پار حملے بڑھ گئے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق اگست میں دہشت گردی کے واقعات میں جولائی کے مقابلے میں 74 فیصد اضافہ ہوا۔
گزشتہ ماہ امریکہ نے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کے عسکری دھڑے مجید بریگیڈ کو باضابطہ طور پر ’’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دیا۔ بی ایل اے کو پہلی مرتبہ 2019 میں عالمی دہشت گرد گروہ قرار دیا گیا تھا اور تب سے یہ متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔
سیلاب اور زرعی بحران
پی پی پی چیئرمین نے پریس کانفرنس میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے کسانوں کو بدترین نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں لاکھوں ایکڑ زمین تباہ ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ’’سیلاب نے ہماری زراعت کو شدید نقصان پہنچایا۔ آج بھی ملتان، لودھراں اور بہاولپور کے کئی علاقوں میں پانی کھڑا ہے۔ اگر خوراک کی سیکیورٹی متاثر ہوئی تو پورا ملک نقصان اٹھائے گا۔‘‘
زرعی ایمرجنسی کے نفاذ کا خیرمقدم
بلاول بھٹو نے حکومت کی طرف سے زرعی ایمرجنسی کے نفاذ اور متاثرہ کسانوں کے بجلی کے بل معاف کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔
’’ہم نے وزیر اعظم سے زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا، میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔‘‘
بلاول نے اعلان کیا کہ سندھ حکومت بینظیر کسان کارڈ کے ذریعے چھوٹے کسانوں کو براہ راست ریلیف فراہم کرے گی۔
قومی یکجہتی پر زور
پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے قومی یکجہتی ضروری ہے۔ ’’یہ صرف ایک حکومت کا کام نہیں ہوتا۔ ایسے وقت میں وفاق کو قیادت کرنی چاہیے۔‘‘
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دفاع
بلاول بھٹو نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی اس کی کامیابی کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکمران جماعت نے اس پر یو ٹرن لیا ہے تو وضاحت انہی کو دینا ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بی آئی ایس پی کو عالمی سطح پر بھی مؤثر سماجی تحفظ کے پروگرام کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور کئی ممالک اس ماڈل کو اپنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
آئینی اصلاحات اور بھٹو فیملی
بلاول نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے تاحال کوئی آئینی ترمیمی مسودہ شیئر نہیں کیا۔ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو پیپلز پارٹی مشاورت کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے اپنے کزنز فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے سیاست میں داخلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ انہیں ان کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف نہیں۔
’’میرے کزنز کچھ عرصے سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ ان کو سیاست میں خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘
دیکھیں: بلوچستان نیشنل موومنٹ کی جنیواکانفرنس میں ریاست مخالف بیانیے کی گونج