یوں تو آج کے دن کو منانے کا مقصد جہاں حیا و حجاب کے کلچر کو عام کرنا ہوتا ہے وہیں شرم و حیا اور پاکیزگی جیسے موضوعات پہ بھی گفتگو ہوتی ہے۔ ہم کچھ مختلف لے کہ آئے ہیں آپ کے لیے کہ آج کے دن کا موضوع یوم حجاب ہے تو حجاب و برقعہ کی تاریخ اور جدید تراش خراش پہ بات کرلیتے ہیں ۔۔
دنیا بھر میں برقعہ انڈسٹری اس وقت بہت تیزی سے فروغ ہونے والی صنعت ہے جس سے وابستہ ہزاروں لوگ عبایا و حجاب اور اس سے منسلک دوسری اشیاء کی تیاری میں نہ صرف اپنا حصہ ڈال رہے ہیں بلکہ یہ معاشی استحکام میں بھی بہت بڑا کردار ادا کررہا ہے۔
اللہ تعالیٰ سورہ نور میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنی چادروں کے پلو اپنے چہروں اور اپنے سینوں پہ ڈال لیا کرو یہی نہیں سورہ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی اپنی بیویوں اور مسلمان عورتوں سے کہ دیجیئے کہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکالیا کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائ نہ جائیں ۔
یہ وہ احکامات تھے جن کے بعد پردہ مسلمان خاتون کے لیے فرض قرار دے دیا گیا ۔۔ پردہ کی انہی تفصیلات میں جب بات ہوتی ہے کہ پردہ کیسا ہو تو ہمیں جو سمجھ آتا ہے وہ یہ کہ ایسا پردہ ہو جس سے زینت کا اظہار نہ ہو اور جسم کے خدو خال نمایاں نہ ہو یعنی برقعہ اتنا ڈھیلا ہو کہ پہننے والے کو پتہ نہ لگ سکے کہ وہ کس تراش و خراش کا مالک ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں برقعے کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ اس علاقے میں برقعہ کا تصور کالے رنگ کا سادہ سا برقعہ ہی تھا جسے مسلمان خواتین گھر سے باہر نکلنے سے پہلے اوڑھ لیا کرتی تھیں۔ شرفا کے گھرانوں میں برقعہ پہننا لازم تھا۔ یہی نہیں مسلمان خاتون گھر سے نکلنے کے لیے جس پالکی میں سفر کرتی اس پہ بھی چلمن اور پردہ پڑا ہوتا تھا۔ اس برقعہ کی سب سے دلچسپ بات اس کے حجاب کا وہ حصہ تھا جسے بوقت ضرورت خواتین سر پہ سے چہرے پہ ڈال لیا کرتیں اور جب ضرورت محسوس نہ ہوتی تو وہ پردہ پلٹ کہ پھر سر پہ چلا جاتا تھا۔
پاکستان میں بھی ایک طویل عرصے تک برقعہ اپنے اسی انداز میں رائج رہا کہ جس میں سادگی اور وقار تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں برقعہ کے فروغ اور حیا و حجاب کے وسیع تصور کو فروغ دینے میں جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا کردار جہاں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے وہیں اسلامی جمعیت طالبات نے اس کو تعلیمی اداروں کے اندر نہ صرف یہ کہ قابل قبول بنایا بلکہ ٹرینڈ بھی سیٹ کیے جسے بعد میں الہدیٰ اور دیگر جماعتوں اور اداروں نے بھی اپنایا۔ پردہ اور اس کی مکمل تفصیلات کے حوالے سے اگر کوئ کتاب دنیا بھر میں سند کی حیثیت رکھتی ہے تو وہ سید ابوالاعلی مودودی کی کتاب ” پردہ ” ہے جس میں پردے کو اس کی پوری جزئیات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔۔
دور جدید میں برقعہ اور پردہ نے جہاں معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے جہاں یہ ہر خاتون کی ضرورت بن چکی ہے وہیں اس کی تراش خراش اس کے طور اطوار اس کی نفاست میں بھی بڑی تبدیلیاں آگئیں ہیں۔ جو اس رجحان کو عام کرنے میں بڑا مثبت کردار ادا کررہا ہے لیکن بعض اوقات پردہ و حجاب کے اصل مقصد کو فوت کردیتا ہے۔ پردہ و حجاب برقعہ و عبایا ہمارے معاشرے میں الحمدللہ اس قدر رائج ہوچکے ہیں کہ اب بڑے بڑے برانڈز بھی اسے لانچ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اس وقت بے شمار خواتین مختلف ناموں سے آن لائن اسٹور کے ذریعے خواتین کے لیے جدید انداز میں عبایاز ڈیزائن کررہی ہیں جبکہ ایک مارکیٹ وہ بھی ہے جہاں تیار عبایاز اسٹینڈرڈ سائز میں مناسب قیمت میں دستیاب ہیں تو دوسری جانب ہر سائز اور کسٹمر کی پسند کے مطابق کسٹمائزڈ عبایاز بھی دل کو للچاتے ہیں لیکن ان کی قیمت عام عبایا سے زیادہ ہوتی ہے۔ عبایا انڈسٹری نے اس وقت بڑے زور و شور سے اپنے خریدار کو اپنی جانب راغب کیا جب اسے بھی ڈیزائنر عبایا کا نام دیا گیا یوں برقعہ بھی طبقاتی کشمکش کا شکار ہوگیا ۔۔
اس وقت جدید انداز کے بٹن والے آگے سے کھلے عبایاز اور بڑے گھیر والی بند میکسی جہاں سب سے زیادہ مقبول ہے وہیں پرنٹڈ عبایاز اور ترکی و لبنان سے متاثر ہو کہ جدید 3 tiar ڈریسز بھی بے حد مقبول ہوچکے ہیں ۔جہاں کبھی برقعہ سادگی کی علامت تھا اب اس پہ لیس ۔موتی پائپن کڑھائی کٹ دانے کا نفیس کام بھی اس کو رونق بخشتا ہے ۔اس کے ساتھ آستینوں کے نئے انداز بھی بڑے خوبصورت دکھائ دیتے ہیں ۔۔۔ برقعے کی اس جدید شکل نے بلا شبہ ان خواتین کی مشکل آسان کردی ہے جنہیں نوکری کے دوران یا تعلیم حاصل کرنے کے دوران پردہ بھی کرنا ہوتا ہے ساتھ یہ بھی دکھانا ہوتا ہے کہ ہم پورے وقار اور تہذیب کے ساتھ اس کو اپنائے ہوئے ہیں یہی نہیں فینسی برقعوں نے ان خواتین کے لیے بھی بہت آسانی کردی ہے جنہیں اکثر برقعوں میں ہی شادی بیاہ کے فنکشن میں شرکت کرتی ہوتی ہے ۔۔۔ ۔
برقعہ کیسا ہو؟؟ ہم کس کپڑے کا برقعہ بنائیں رنگ کیا ہو یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر خواتین برقعہ کی خریداری کے وقت پوچھتی ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں سے جب گرمی زیادہ پڑنے لگی اور کیونکہ ندا فیبرک میں ہلکے رنگ نہیں ہوتے تو اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ٹھنڈے ٹھنڈے رنگوں کے جارجٹ کے برقعے بھی متعارف کروائے گئے جنہیں بے حد مقبولیت ملی۔
برقعہ تو بنالیا اب سر کو کیسے کور کریں ؟؟ یہ اہم سوال ہے ہر حجابی خاتون کے لیے 2010 سے پہلے تک پاکستان میں خواتین شفون کے چوکور اسکارف کو تکون کرکے اوڑھتی تھیں جس سے ان کا یقینا پردہ مکمل ہوجاتا تھا۔
چین سے مختلف اشیا کی برآمداد میں اضافہ ہوا تو تو حجاب میں بھی جدید تراش خراش اور نت نئے انداز متعارف کروائے گئے جس نے حجاب کی صنعت کو بھی ایک نئے موڑ پہ لا کھڑا کیا rectangle انداز کا 32×30 سائز کے ان اسٹولز نے حجاب کو عام کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ۔۔ میچنگ کے رنگ برنگے دوپٹے شفون جارجٹ ,سلک اور لان کے ان اسٹولز نے ہر عمر کی خواتین کو جہاں متاثر کیا وہیں اسے اپنانے میں جو جھجھک محسوس ہوتی تھی وہ بھی ختم ہوگئ اس کے ساتھ انہیں اوڑھنے اور carry کرنے کے نت نئے انداز اس کے نیچے پہننے والی under caps طرح طرح کی pins نے کسٹمر کو اپنی جانب خوب متوجہ کیا ۔۔ اور سکھایا کہ پردہ اور حجاب ایک مکمل پیکج ہیں لیکن اس پیکج کا ایک حصہ ہمیں اب بھی بے چین کرتا ہے جو اس خوبصورت حکم کے اندر سے اس کی روح کو ختم کردیتا ہے وہ ہے اس کی مارکیٹنگ کے جدید انداز Eye makeup کرکے tutorial کرنا برقعہ پہن کے ماڈلنگ کرنا یہ سب کام یقیناً ان تمام احکامات سے ٹکراتے ہیں جن کا حکم اللہ رب العالمین ایک مسلمان خاتون کو دیا ہے ۔
آخر میں ایک بات کہ برقعہ چاہے کتنا ہی جدید کیوں نہ ہو جائے حجاب لینے انداز کس قدر ہی نیا ہوجائے جب تک ہم اسے اس کی مکمل روح کے ساتھ نہیں اپنائیں گے غص بصر شرم و حیا گفتگو میں حیا نظروں کی حفاظت کا خیال نہیں رکھیں گے تو یہ میرا اور آپ کا جسم تو ڈھانک دے گا ہمارے سر اور بال بھی چھپالے گا لیکن اللہ کے سامنے وہ بے پردگی ہوگی کہ جس کا پردہ پھر رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے اچھے اچھے پیارے پیارے برقعے پہنیں اسٹائلش سے ڈریسز ہہنیں میچنگ کے اسٹولز اوڑھیں لیکن اس مکمل پیکج کے ساتھ جس کا حکم اللہ نے ہمیں دیا ہے۔