کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے بدھ کے روز کہا کہ ان کا ملک ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا “ارادہ‘‘ رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ فرانس اور برطانیہ بعض شرائط کے ساتھ پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں اور جی سیون گروپ سے تعلق رکھنے والا کینیڈا ایسا تیسرا ملک ہے جس نے یہ اعلان کیا ہے۔
یہ فیصلہ کینیڈا کی حکومت کی طرف سے پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔
وزیر اعظم کارنی نے اس فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی امیدوں کو برقرار رکھنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
کارنی نے کہا، “کینیڈا ستمبر 2025 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔”
کارنی نے کہا کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ فلسطینی اتھارٹی “2026 میں عام انتخابات کا انعقاد کرائے، جس میں حماس کا کوئی بھی کردار نہ ہو اور اس میں فلسطینی ریاست کو غیر عسکری بنانا بھی شامل ہے۔”
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ کینیڈا بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
کارنی نے زور دے کر کہا کہ حماس فلسطین کے مستقبل میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی اور اسے مستقبل کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مارک کارنی نے کہا کہ دو ریاستی حل کو محفوظ رکھنے کا مطلب ان تمام لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، جو تشدد یا دہشت گردی پر امن کا انتخاب کرتے ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں میں توسیع، غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ غزہ میں انسانی مصائب کی سطح ناقابل برداشت ہے اور یہ تیزی سے بگڑ رہی ہے۔
کارنی نے کہا کہ کینیڈا طویل عرصے سے مذاکراتی امن عمل کے ایک حصے کے طور پر دو ریاستی حل کے لیے پرعزم تھا، تاہم انہوں نے کہا کہ یہ نقطہ نظر اب قابل عمل نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا، ”ہماری آنکھوں کے سامنے فلسطینی ریاست کا امکان ختم ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
کارنی نے نیوز کانفرنس کے دوران یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اس اعلان کے بارے میں بدھ کے روز ہی فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بات کی تھی۔
اسرائیل نے کینیڈا کے اس اعلان پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دیکھیں: برطانوی حکومت کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ