این آر ایف کا دعویٰ ہے کہ ان کی کارروائیاں صرف دشمن کے ٹھکانوں کے خلاف ہیں اور عام شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے، تاہم افغانستان میں جاری مسلسل عدم استحکام اور عسکری سرگرمیوں سے خطے میں سکیورٹی چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جو کسی ایک جماعت، دور یا ادارے کی نہیں بلکہ پوری قوم کی مشترکہ متاع ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر سلطان بشیر محمود (ستارۂ امتیاز) انہی ناموں میں شامل ہیں۔ وہ محض ایک ایٹمی سائنس دان نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے ان بنیاد گزاروں میں سے ہیں جن کی دہائیوں پر محیط خاموش، مسلسل اور بے مثال محنت نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنایا۔
انسانی حقوق اور قومی سکیورٹی کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کی ضرورت نہیں۔ پائیدار سکیورٹی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کا اعتماد رکھے، اور شہری ریاست پر بھروسہ قائم کریں۔ یہی توازن پاکستان کے لیے عالمی برادری میں اپنی بات منوانے کے لیے ضروری ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب کابل پر ان گروہوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ بڑھتا ہے تو وہ معلومات اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں اور الزامات کا رخ پاکستان کی جانب موڑ دیتا ہے۔ لہذا تمام تر شواہد اور حقائق یہی ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان آج دنیا کے سب سے زیادہ غیر ملکی جنگجوؤں کے محفوظ ٹھکانوں کا مرکز بن چکا ہے۔
پاکستان نے افغان طالبان کے سابق اہلکار قاری سعید خوستی کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ادویات بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار اور برآمد کی جاتی ہیں
او آئی سی کے 51 ویں اجلاس میں فلسطین کی حمایت، پاکستان کے ساتھ یکجہتی اور ایران-اسرائیل کشیدگی پر اقوام متحدہ کی کارروائی کی اپیل کی گئی۔ خطے میں جارحیت کے خلاف متفہ موقف اختیار کیا گیا۔