افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک گرفتار دہشت گرد وسیم نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے منسلک گروہ جماعت الاحرار افغانستان کے اندر باقاعدہ تربیتی مراکز چلا رہے ہیں، جہاں کم عمر لڑکوں کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
گرفتار افغان دہشت گرد نے تفتیش کے دوران بتایا کہ اس کا نام وسیم ولد مائدہ گل ہے اور صوبہ ننگرہار کے علاقے ارخی گوشٹہ کا رہائشی ہے۔ اس کی عمر صرف 17 سال ہے۔ وسیم کے مطابق اس نے 2021 میں اپنے گاؤں کے مدرسہ “احناف” میں حفظِ قرآن مکمل کیا، جس کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ زراعت کا کام کرتا رہا۔
افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ نوجوان وسیم نے اعتراف کیا ہے کہ اسے ٹی ٹی پی اور جماعت الاحرار کے کارندوں نے ذہنی و عسکری تربیت دے کر پاکستان بھیجنے کی منصوبہ بندی کی۔ اس نے بتایا کہ جلال آباد کی ایک مدرسے میں کمانڈر ولی خراسانی کے بھائی مولوی بصیر اور دیگر… pic.twitter.com/v7hwm7mHjy
— HTN Urdu (@htnurdu) October 24, 2025
وسیم نے بتایا کہ 2023 میں اس نے جلال آباد کے مدرسہ انوارالقرآن میں داخلہ لیا، جہاں اس کی ملاقات احمد نامی شخص سے ہوئی جو دراصل جماعت الاحرار کا خفیہ رکن تھا۔ احمد نے وسیم سمیت کئی لڑکوں کو جہاد کے نام پر بہلا پھسلا کر بھرتی کیا اور انہیں شونکرائے کے علاقے میں ایک تربیتی مرکز لے گیا۔
وسیم کے مطابق وہاں اس کی ملاقات کمانڈر مولوی بصیر (کمانڈر ولی خراسانی کا بھائی) اور کمانڈر راشد ٹی ٹی پی سے ہوئی۔ اگست 2023 میں تقریباً 23 نوجوانوں کے ایک گروپ کی تربیت شروع ہوئی۔ مولوی صادق تربیت کے نگران تھے جبکہ ایک نقاب پوش شخص انہیں “ذہنی اور روحانی طور پر تیار” کرتا تھا۔
اس نے مزید بتایا کہ افغانستان کے مختلف مدرسوں میں ایسے چار سے پانچ تربیتی گروپ موجود تھے، ہر گروپ میں 20 سے 25 نوجوان شامل تھے، یوں کل تقریباً 100 لڑکوں کو مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے لیے تیار کیا گیا۔ ان میں سے کئی کو بعد میں پاکستان کے مختلف شہروں میں کارروائیوں کے لیے بھیجا گیا۔
وسیم نے بتایا کہ تربیت مکمل کرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ گھر واپس آیا۔ بعدازاں کمانڈر راشد نے اسے دوبارہ کابل بلا کر بتایا کہ اسے “پاکستان کے خلاف جہاد” کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ مئی 2024 میں اسے خودکش جیکٹ چلانے کی تربیت دی گئی۔
کمانڈر راشد نے ایک افغان اسمگلر کے ذریعے وسیم کو پاکستان بھیجنے کا بندوبست کیا اور اسے 40 ہزار روپے دیے۔ وسیم کے مطابق 10 سے 15 افراد کا گروپ نیمروز کے راستے رات کی تاریکی میں سرحد عبور کر کے کوئٹہ پہنچا، جہاں سے وہ بس کے ذریعے پشاور گیا۔
اس نے بتایا کہ سفر کے دوران وہ مختلف لوگوں کے فون استعمال کرتے رہے تاکہ پشاور میں موجود اپنے “ہینڈلر” سے رابطہ برقرار رکھ سکیں۔ بالآخر وہ حاجی کیمپ اڈہ، پشاور پہنچا جہاں اسے پاکستانی خفیہ اداروں نے گرفتار کر لیا۔
پاکستانی سیکورٹی حکام کے مطابق یہ اعترافی بیان افغانستان میں سرگرم دہشت گرد نیٹ ورکس کے وجود کا ثبوت ہے جو اسلامی امارت افغانستان کے زیرِ سایہ یا اس کی خاموشی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ انکشاف اس حقیقت کو مزید تقویت دیتا ہے کہ افغانستان نہ صرف دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے بلکہ وہاں سے پاکستان کے خلاف منظم کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
افغانستان اور اسلامی امارت کی قیادت کی جانب سے اب تک اس حوالے سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
دیکھیں: وزیرِ دفاع کا بیان ہی پاکستان سے معاہدے کی اصل تفصیل ہے؛ افغان وزارت دفاع