بلوچستان ہمیشہ سے پاکستان کے دشمنوں کا ہدف رہا ہے۔ کبھی علیحدگی پسندی کے نعروں کے ذریعے، کبھی دہشت گردی اور بغاوت کے ذریعے اور کبھی انسانی حقوق کے لبادے میں۔ حالیہ دنوں میں ایک اور لرزہ خیز انکشاف سامنے آیا ہے جب بلوچستان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے لیکچرار ڈاکٹر عثمان قاضی کو دہشت گردی کے سنگین واقعات میں ملوث پایا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں ڈاکٹر قاضی کا ویڈیو بیان پیش کیا، جس میں انہوں نے کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ وہ کالعدم بی ایل اے سے منسلک رہے اور متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں سہولت کاری فراہم کرتے رہے۔
تعلیم یافتہ مگر دہشت گردی میں ملوث؟
ڈاکٹر عثمان قاضی کا کیس چونکا دینے والا ہے کیونکہ وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ایک سرکاری ملازم بھی تھے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز اور ایم فل، اور پشاور یونیورسٹی سے اسکالرشپ پر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اس کے بعد وہ کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی میں لیکچرار تعینات ہوئے۔ اس پس منظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک کامیاب اور محفوظ زندگی گزار رہے تھے۔ مگر ان کے اعترافات بتاتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی کس طرح شدت پسند تنظیموں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
کوئٹہ سے بی ایل کے سہولتکار پروفیسر ڈاکٹر عثمان قاضی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
— HTN Urdu (@htnurdu) August 18, 2025
ڈاکٹر عثمان قاضی نے مطالعہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ ڈاکٹر عثمان قاضی مجید بریگیڈ کا ایک اہم رہنماء ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔
ڈاکٹر عثمان نے اعترافی بیان جاری کر دیا۔ 👇🏻 pic.twitter.com/cq7PEJWdAf
یہ کوئی پہلا کیس نہیں۔ اس سے پہلے بھی کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ، شاری بلوچ، ، جنہوں نے کراچی یونیورسٹی میں زولوجی میں ماسٹر اور ایم فل کیا ، بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کی جانب سے خودکش حملے میں استعمال ہوئی۔ اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے چینی اساتذہ پر کیے گئے خودکش حملے میں اسی خاتون نے اپنی جان دی۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ بی ایل اے اور اس کے ذیلی گروپ کس حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں — وہ پڑھ لکھے نوجوانوں کو ہدف بنا رہے ہیں تاکہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ ان کے “کارکن” تعلیم یافتہ اور باوقار لوگ ہیں، حالانکہ اصل مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اور ریاستی اداروں پر حملے کرنا ہے۔

دہشت گردی کا نیٹ ورک اور سہولت کاری
ڈاکٹر عثمان قاضی نے اپنے ویڈیو بیان میں اعتراف کیا کہ انہوں نے نہ صرف دہشت گردوں کو پناہ دی بلکہ ان کے علاج، رہائش اور تربیت میں بھی سہولت فراہم کی۔ ان کے مطابق ریلوے اسٹیشن کے خودکش حملے میں ملوث رفیق بزنجو ان کے پاس دو دن رہا تھا۔ نومبر 2024 میں اس حملے میں 32 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جن میں 10 سویلینز اور باقی سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔
یہی نہیں، انہوں نے جشنِ آزادی پر بڑے حملے کے منصوبے کی بھی تفصیلات بیان کیں۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس ریاست نے نوکری، عزت اور وقار سب کچھ دیا تھا، مگر انہوں نے اس کے بدلے دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ:
“ریاست نے مجھے سب کچھ دیا، مگر میں نے غداری کی۔ نوجوان نسل کو پیغام ہے کہ ایسی تنظیموں سے دور رہیں۔”
سکیورٹی ادارے اور ہمارا نظام انصاف
بلوچستان میں مسائل اور خدشات اپنی جگہ پر بدستور موجود ہیں۔ معیار زندگی انتہائی تشویشناک ہے اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ایک بڑا چیلنج ہے۔ مگر سکیورٹی ادارے اس کی واحد وجہ نہیں ہیں۔ جاگیردارنہ اور سرمایہ دارانہ نظام، سرداروں کی من مانیاں اور سیاستدانوں کی اندھا دھند کرپشن نے بلوچستان کی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ سکیورٹی خدشات کے باعث جن لوگوں کو تحویل میں لے کر عدالت پیش کیا جاتا ہے، وہ انتہائی ناقص نظام انصاف کے باعث پہلی ہی پیشی پر چھوٹ جاتے ہیں اور پھر سے ریاستی اداروں اور امن و امان کو چیلنج کرتے ہیں۔
یہ سارے حالات سکیورٹی اداروں اور مقتدرہ کو سخت فیصلے لینے پر مجبور کرتے ہیں جس کی زد میں بلا مبالغہ چند بے گناہ بھی آتے ہیں۔ جہاں سکیورٹی اداروں کو مزید احتیاط اور شفاف طریقہ کار کی ضرورت ہے، وہیں حالات سیاسی و عدالتی بہتری کے بھی متقاضی ہیں۔
انسانی حقوق کے نام پر پروپیگنڈہ
اس سارے پس منظر میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ایسے کیسز سامنے آنے کے باوجود کچھ حلقے انسانی حقوق کے نام پر ان کی حمایت کرتے ہیں۔ کبھی اسلامی جمعیت طلبہ، کبھی ایمان مزاری، اور کبھی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، یہ بیانیہ پیش کرتے ہیں کہ بلوچستان میں نوجوانوں کو صرف “رائے رکھنے” پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہی “مظلوم نوجوان” دہشت گرد نکلتے ہیں، جیسا کہ شاری بلوچ یا اب ڈاکٹر عثمان قاضی۔
ڈاکٹر عثمان کی گرفتاری پر اسلامی جمیعت طلبا نے پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد عثمان قاضی کو ان کے بھائی کے ہمراہ کوئٹہ میں ان کے گھر سے 12 اگست کی شب میں حراست میں لیکر لاپتہ کردیا گیا ہے یہ ماورائے قانون اقدام ہے ۔ اساتذہ کے ساتھ اس قسم کا رویہ اختیار کرنا انتہائی نقصان دہ ہے جس کی اسلامی جمیعت طلبا شدید مذمت کرتی ہے۔

بیوٹمز اسٹاف ایسوسی ایشن نے گرفتاری پر پولیس اور ریاستی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کھلی تنقید کی اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔تاہم اب ڈاکٹر عثمان کا بیان چشم کشا ہے۔ جہاں ایک یہ ایک طرف لمحہ فکریہ ہے کہ کیسے عام زندگی گزارتا ہوا ایک شہری ایسے خطرناک مشن پر ہو سکتا ہے، وہیں ایسی تنظیموں کو کسی شخص کے بارے میں جذباتی بیان دینے سے پہلے تفتیش اور تسلی کر لینی چاہئے۔
ماہرنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی جو آئے روز نوجوانوں کی تصاویر اٹھائے اسلام آباد کا رخ کر لیتےہیں، ان میں اکثر نوجوان بعد میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں یا سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں مارے جاتے ہیں۔ حیران کن طور پر ماہرنگ بلوچ خود بھی ایک سرکاری ملازمہ ہیں اور ان کے والد غفار لانگو، بی ایل اے کے بانی اراکین میں سے ایک تھے اور معروف کمانڈر تھے جو آپسی لڑائی میں مارے گئے تھے۔

یہی نہیں، بھارت کے جاسوس کلبھوشن یادیو کا کیس بھی دنیا کے سامنے ہے، جو بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ اس سے یہ حقیقت مزید عیاں ہوتی ہے کہ بلوچستان کو بیرونی قوتیں کیسے استعمال کر رہی ہیں۔ بالخصوص انڈیا کا بلوچستان میں کردار اور بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں دہشت گرد عناصر کو فنڈنگ کرنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

بلوچستان کی اسٹریٹیجک اہمیت اور دشمنوں کا ایجنڈا
بلوچستان پاکستان کے لیے صرف ایک صوبہ نہیں بلکہ مستقبل کا گیٹ وے ہے۔ یہاں سی پیک کا مرکز گوادر پورٹ ہے، بے شمار معدنی وسائل ہیں، اور جغرافیائی محلِ وقوع ایسا ہے کہ ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا سے جڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن قوتیں بلوچستان کو غیر مستحکم رکھنا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان کے ترقیاتی منصوبے سبوتاژ ہوں۔

حقائق اور بیانیے میں فرق
ڈاکٹر عثمان قاضی کا اعترافی بیان ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی صرف “انصاف اور حقوق” کی تحریک نہیں بلکہ ایک باقاعدہ نیٹ ورک ہے جسے بیرونی قوتیں سہارا دیتی ہیں۔ انسانی حقوق کے نام پر جو پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے وہ محض ان دہشت گردوں کے لیے ڈھال ہے تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے۔
ریاست کو چاہیے کہ ایسے کیسز کو سامنے لاتے ہوئے عوام کو حقائق سے آگاہ کرتی رہے تاکہ قوم دشمنوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہو۔ جیسا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا: “یہ وقت ہے کہ ہم حقیقت اور پروپیگنڈے میں فرق سمجھیں۔ دہشت گرد چاہے کسی بھی لبادے میں ہوں، وہ دراصل ریاست اور عوام کے دشمن ہیں۔”
دیکھیں: وزیر داخلہ محسن نقوی کا بھارت کے تباہ ہونے والے 6 طیاروں کی ویڈیوز موجود ہونے کا دعویٰ