عالمی تجارتی ادارے ڈبلیو ٹی او کوامریکی درآمدات پر 724 ملین ڈالر کے ٹیکس لگانے پر بھارت کا دوٹوک مؤقف دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی میں نمایاں اضافے کی علامت ہے۔ یہ ٹیکس واشنگٹن کی جانب سے بھارتی گاڑیوں، پرزوں پر اضافی محصولات کے جواب میں لگائے جا رہے ہیں۔
وزارت تجارت و صنعت نے کہا ہے کہ امریکہ نے مذکورہ ٹیکس باہمی مشاورت کے بغیر عائد کیے ہیں، اسی وجہ سے بھارت ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی روشنی میں مراعات مسترد کرتا ہے۔ مذکورہ پالیسی کونسل برائے تجارتِ سامان ڈبلیو ٹی او کو بھیج دیا ہے۔
یہ اقدام عین اس وقت اٹھایا گیا ہے جب نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان دوطرفہ تجارتی مذاکرات جاری ہیں۔ بھارت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سکریٹری راجیش اگروال حال ہی میں امریکہ میں ہونے والے اعلی سطحی مذاکرات سے واپس لوٹے ہیں۔
دوہری حکمتِ عملی
اس وقت بھارت ایک نازک موڑ سے گزررہا ہے۔ ایک جانب تو وہ امریکہ کے ساتھ چھوٹے تجارتی معاہدے کے ذریعے اقتصادی تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے، جبکہ دوسری جانب تجارتی معاملات میں امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔ اس دوہری حکمتِ عملی نے بھارتی تجارتی پالیسی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اکثر ڈبلیو ٹی او میں معاملات حل کرنے کے بجائے اپنی پالیسیوں کوہی درست قراردیتاہے۔ ایک تجارتی تجزیہ کارکےمطابق بھارت مصالحت کے بجائے دباؤ کو ترجیح دیتا ہے۔
نتیجتاً ایسی چال و حکمتِ عملی شراکت داروں کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔ امریکی حکام نےتشویش کااظہار کیا ہےکہ بھارت ڈیجیٹل ٹیکسیشن اور زرعی سبسڈیز جیسےاہم مسائل کی جانب عدم توجہی برت رہاہے۔
عالمی سطح پر پیغام
دو طرفہ تناؤ سے ہٹ کر انڈیا کا ڈبلیو ٹی او کو بھیجا گیا نوٹس ایک واضح پیغام دیتا ہے۔ بھارت کی اپنی من پسند تجارتی پالیسیوں جیسے رویوں پر نظری ثانی کا اشارہ دیتاہے، حالانکہ وہ عالمی اقتصادی تعاون کی وکالت کرتا ہے۔ اس قسم کےمنصوبے بھارت کوتجارتی دنیا میں غیرمعمولی نقصان پہنچاسکتےہیں۔
مزید یہ کہ انڈیا کی یک طرفہ سوچ اور غیرسنجیدگی کو واشنگٹن کےکچھ حلقوں میں مفاد پرست،معیوب سمجھارہاہے۔ اس سے امریکہ۔بھارت کے درمیان مستحکم تعلقات کی تعمیر کی کوششوں میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
انڈیا کا موقف ہے کہ اسے ڈبلیو ٹی او کے قوانین کے تحت مکمل حق حاصل ہے۔ تاہم انڈیا کےرویے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اب وہ اعتماد و مصالحت کے بجائے دباؤ،ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہا ہے۔ جبکہ دنیا کی دو بڑی ریاستیں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں، تجارتی کشیدگی کو کم کرنا دوطرفہ تعلقات و تجارت کےلیےناگزیرہے۔