افغانستان کی طالبان قیادت کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت اور بھارت کے درمیان صحت کے شعبے میں تعاون تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، ایسے وقت میں جب افغانستان نے پاکستانی فارماسیوٹیکل مصنوعات کی درآمد مرحلہ وار بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیش رفت افغانستان-پاکستان تعلقات میں کشیدگی، سرحدی جھڑپوں اور متنازع بیانیوں کے پس منظر میں سامنے آئی ہے، جس نے صحت جیسے حساس شعبے کو بھی جیوپولیٹیکل صف بندی کا حصہ بنا دیا ہے۔
افغان وزیرِ صحت نور جلال جلالی 16 تا 21 دسمبر 2025 بھارت کے پہلے سرکاری دورے پر ہیں۔ یہ تین ماہ میں کسی سینئر طالبان عہدیدار کا تیسرا دورۂ بھارت ہے۔ دورے کا مقصد صحت کے شعبے میں تعاون، استعداد سازی اور ادویات کی فراہمی پر بات چیت بتایا گیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق بھارت نے علامتی طور پر اینٹی کینسر ادویات اور ویکسین افغانستان کے حوالے کیں اور مستقبل میں “ادویات، ویکسین اور 128-سِلائس سی ٹی اسکینر” فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
دورے کے دوران افغان وفد کی بھارتی فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ملاقاتیں بھی طے ہیں، جنہیں “افغانستان کی پبلک ہیلتھ سپلائی چین میں شمولیت” کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں بھارتی کمپنی زائیڈس لائف سائنسز اور افغان شراکت داروں کے درمیان 100 ملین ڈالر کے مفاہمتی معاہدے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں، جس کے تحت ابتدائی طور پر ادویات کی برآمد اور بعد ازاں مقامی پیداوار و ٹیکنالوجی ٹرانسفر شامل ہے۔
ادھر نومبر 2025 میں افغانستان نے پاکستانی ادویات کی درآمد پر مرحلہ وار پابندی کا اعلان کیا، جس کی وجہ “معیار سے متعلق خدشات” بتائی گئی۔ تاہم تاحال کسی شفاف، تیسرے فریق کی جانب سے آزاد فارماکولوجیکل ٹیسٹنگ یا ریگولیٹری رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آئی۔ اس کے برعکس، طالبان سے منسلک ایک فوجی صحت عہدیدار کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں پاکستانی ادویات کو “جعلی” قرار دیا گیا، جس کے دعوے آزادانہ طور پر تصدیق شدہ نہیں ہیں۔
ماہرین کے مطابق کسی بڑے سپلائر کی اچانک بندش نے افغان منڈیوں میں ادویات کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کو جنم دیا ہے، جس سے براہِ راست مریض متاثر ہو رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ “ادویات کی حفاظت” کے نام پر فیصلے اگر شفاف سائنسی جانچ کے بغیر کیے جائیں تو یہ عوامی صحت کے بجائے اسٹریٹجک ری الائنمنٹ کا تاثر دیتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کا بھارت کی طرف جھکاؤ، اکتوبر کی سرحدی کشیدگی کے بعد پاکستان سے تجارتی و سفارتی روابط میں سرد مہری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس تناظر میں صحت کے بیانیے کو جیوپولیٹیکل ہتھیار بنانا علاقائی اعتماد، ریگولیٹری تعاون اور عوامی صحت کے نظم و نسق کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ترقیاتی حق تسلیم شدہ ہے، مگر مشترکہ نظامِ آب و تجارت اور صحت جیسے شعبوں میں شفافیت اور تعاون ناگزیر ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کہ ایک سپلائی چین کو دوسری سے بدلتے وقت اگر آزادانہ تصدیق اور تدریجی نفاذ نہ ہو تو اس کی قیمت سیاسی اشاروں کے بجائے عام افغان مریضوں کو چکانا پڑتی ہے۔