دنیا ہر سال 9 دسمبر کو بین الاقوامی یومِ نسل کشی کی روک تھام مناتی ہے۔ ایک ایسا دن جو ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے بنایا گیا تھا کہ انسانیت دوبارہ کبھی ہولوکاسٹ، سربرینا، روانڈا، بوسنیا یا روہنگیا جیسے سانحات سے نہ گزرے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دن منانے کی رسم تو جاری ہے، لیکن نسل کشی کے خلاف عملی اقدامات اب بھی دنیا کی ترجیحات میں شامل نہیں ہو سکے۔
نسل کشی کوئی اچانک جنم لینے والی تباہی نہیں۔ یہ اس وقت جنم لیتی ہے جب طاقتور طبقات خود کو ”برتر“ اور دوسرے انسانوں کو ”کم تر“ قرار دے کر ان کے وجود تک کو مٹا دینے کے منصوبے بناتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے نسل کشی کو کسی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کی دانستہ کوشش قرار دیا ہے، مگر افسوس کہ آج بھی کئی خطوں میں یہ جرم ریاستی پالیسی کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ عالمی طاقتیں ظلم کو اپنی سیاسی ترجیحات کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں۔ کہیں یہ قتلِ عام “سکیورٹی” کے نام پر جائز ٹھہرتا ہے اور کہیں اسے “دہشت گردی کے خلاف جنگ” کی آڑ ملتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کا ہتھیار اکثر انصاف کے راستے میں دیوار بن جاتا ہے، اور ظالم مزید مضبوط۔
نسل کشی کی روک تھام کا دن ہمیں یہ حقیقت یاد دلاتا ہے کہ صرف افسوس، تعزیت اور تقریریں کسی قوم کی زندگی نہیں بچا سکتیں۔ جب تک عالمی ادارے دوہرے معیار ترک نہیں کرتے، جب تک انسانی حقوق کو جغرافیائی سیاست سے آزاد نہیں کیا جاتا، تب تک نسل کشی رک نہیں سکتی۔
مشرقِ وسطیٰ ہو یا جنوبی ایشیا؛ متاثرہ آبادیوں کے لیے یہ موضوع کوئی علمی بحث نہیں، یہ ان کی بقا کا سوال ہے۔ دنیا کو ان کی چیخیں سننا ہوں گی، ان کی زندگیوں کو تحفظ دینا ہوگا۔ قراردادیں پاس کرنا کافی نہیں، وقت آ گیا ہے کہ عالمی ضمیر فیصلہ کن اقدام کرے۔
کیونکہ اگر دنیا پھر خاموش رہی
تو تاریخ ایک بار پھر یہی لکھے گی
انسانیت نے سبق نہیں سیکھا۔
دیکھیں: ہنگور ڈے: 1971 کی شاندار بحری فتح کی یادیں آج بھی تازہ