ذرائع کے مطابق یہ تمام خبریں بے بنیاد اور افواہوں پر مبنی ہیں، اور گورنر ہاؤس یا دیگر اہم مقامات پر کسی قسم کی فوجی تعیناتی نہیں کی جا رہی۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے دعوے سراسر غلط ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
مقدمے میں ان پر درج ذیل چار الزامات تھے: سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ تھی، اختیارات اور حکومتی وسائل کا ناجائز استعمال، اور افراد کو غیر ضروری نقصان پہنچانا۔
گزشتہ چند برسوں میں طالبان حکام متعدد بار پاکستان اور عالمی برادری کو اسی قسم کی یقین دہانیاں کرا چکے ہیں، مگر ٹی ٹی پی اور دیگر متعلقہ گروہوں کی سرگرمیاں، حملے اور موجودگی نے ان وعدوں کو غیرموثر بنا دیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اس تازہ فتویٰ کی اہمیت کو پرکھا جائے گا۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور پاکستان اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گا۔
امریکی کانگریس مین ٹِم برشیٹ نے افغان طالبان کو مالی معاونت روکنے کے لیے پیش کیے گئے بل کے سینیٹ میں رکنے پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، جن میں سینیٹ اسٹافر ٹام ویسٹ کے مبینہ تعلقات اور کچھ ری پبلکن سینیٹرز کے غیر قانونی مالی فوائد شامل ہیں
دوسرے ملک میں امیر کی اجازت کے بغیر جہاد حرام، نافرمانی کو ”بغاوت” تصور کیا جائے گا؛ کابل میں ایک ہزار سے زائد علما کا مشترکہ فتویٰ
فتویٰ کے مطابق علمائے کرام نے کہا کہ چونکہ شرعی امیر نے کسی بھی افغان شہری کو بیرونی ملک میں مسلح سرگرمی یا جہاد کی اجازت نہیں دی، اس لیے ایسی کوئی کارروائی ناجائز، حرام اور بغاوت کے زمرے میں آئے گی۔
اگر اس اعلامیے پر حقیقی معنوں میں عمل ہو جاتا ہے، تو پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کم ہو سکتے ہیں، سرحدی تجارت بحال ہو سکتی ہے، اور دونوں ممالک میں اعتماد سازی کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے۔
کابل میں افغانستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد علما، مفتیان اور مشائخ نے ایک تاریخی اجتماع میں نہایت اہم پانچ نکاتی شرعی فتویٰ جاری کیا ہے، جس کے خطے میں سیکیورٹی، مذہبی سیاست اور دوطرفہ تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اجتماع کی قیادت ممتاز عالم دین شیخ محمد اسماعیل اور شیخ حبیب اللہ سنمگانی نے کی۔
اجتماع کا بنیادی مقصد افغانستان میں اسلامی نظام کے دفاع، اس کے تقدس کے تحفظ اور اندرونی استحکام کو مضبوط کرنا تھا۔ علمائے کرام نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ اسلامی امارت نہ صرف ایک قائم شدہ شرعی نظام ہے بلکہ اس کی اطاعت، اس کا احترام اور اس کا دفاع ہر افغان شہری پر مذہبی فریضہ ہے۔
دوسرے ملک میں جا کر جہاد کرنا حرام قرار
فتویٰ کے مطابق علمائے کرام نے کہا کہ چونکہ شرعی امیر نے کسی بھی افغان شہری کو بیرونی ملک میں مسلح سرگرمی یا جہاد کی اجازت نہیں دی، اس لیے ایسی کوئی کارروائی ناجائز، حرام اور بغاوت کے زمرے میں آئے گی۔
اسلامی امارت کے مطابق ایسے افراد کے خلاف کارروائی نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے اور امارت اسلامی کو پورا حق حاصل ہوگا کہ وہ ایسے شخص کے خلاف کڑی کاروائی کرے۔
افغان سرزمین کے بیرونی استعمال پر شرعی پابندی
فتویٰ میں واضح کیا گیا کہ اسلامی امارت نے باضابطہ طور پر عہد کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔
اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی گروہ یا فرد اگر افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے لیے نقصان دہ سرگرمیوں میں استعمال کرے گا تو اسے ’’عہد شکن‘‘ تصور کیا جائے گا، اور امارت اسلامی اسے روکنے کے لیے شرعاً اور قانونی طور پر مجاز ہے۔
یہ نکتہ خاص طور پر پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ پاکستان طویل عرصے سے یہی مطالبہ کرتا آیا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو۔
اسلامی امارت کو شرعی اور جائز حکومت قرار دینے کا اعلان
اجتماع کے افتتاحی حصے میں علما نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی امارت وہ شرعی نظام ہے جو افغان قوم کی دہائیوں پر مشتمل قربانیوں، جہاد، شہادت اور ہجرتوں کے نتیجے میں قائم ہوا۔ اعلامیے کے مطابق افغانستان نے اللہ کی مدد اور قوم کی یکجہتی سے اپنی آزادی اور قومی وحدت کو محفوظ بنایا، جبکہ ملک گیر سطح پر شریعت، امن اور اتحاد قائم کیا۔
علمائے کرام نے واضح کیا کہ اسلامی امارت کے تحت مذہبی اقدار محفوظ ہیں اور اسی لیے اس نظام کی اطاعت تمام شہریوں پر واجب ہے۔ فتویٰ میں کہا گیا کہ ’’جس طرح ایمان کے تقاضے کے طور پر اسلامی نظام کا قیام ضروری ہے، اسی طرح اس نظام کا دفاع اور اس کی حفاظت بھی مذہبی فریضہ ہے۔‘‘
بیرونی جارحیت کی صورت میں ’فرضِ عین جہاد‘ کا اعلان
فتویٰ میں دوٹوک انداز میں کہا گیا ہے کہ اگر کبھی افغانستان پر بیرونی حملہ ہوتا ہے یا مسلمانوں کے تقدس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، تو ایسی صورت میں دفاع ہر افغان پر ’’فرضِ عین‘‘ ہوگا، اور یہ دفاع ’’مقدس جہاد‘‘ تصور ہوگا۔
علما نے زور دیا کہ افغان قوم نے تاریخ میں ہر جارح کے سامنے مزاحمت کی ہے اور آئندہ بھی متحد رہے گی۔
امتِ مسلمہ میں اتحاد اور باہمی تعاون پر زور
علما نے مسلم ممالک اور عوام سے اپیل کی کہ وہ اسلامی اخوت کے تحت باہمی تعاون، مفاہمت اور خیر خواہی کو فروغ دیں۔ منابر اور خطبات میں اس پیغام کو عام کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔
اجتماع میں مذہبی انتشار، اندرونی خلفشار اور مسلح تصادم کو امت کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا۔
مولانا عبد الرب کا اہم بیان
اس پورے عمل کے پس منظر پر تبصرہ کرتے ہوئے پاک افغان دینی حلقوں میں یکساں مقبول ممتاز عالمِ دین مولانا عبد الرب صاحب نے اسے ایک نہایت مثبت پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے کہا:
“واقعی بہت بہترین کام ہوا ہے۔ اس کے پسِ منظر میں جو نیت ہے، وہ بھی مثبت دکھائی دیتی ہے۔ میرے خیال میں غالباً یہ سب اُس پیش رفت کا حصہ ہے جو سعودی عرب نے دونوں جانبین کو ریاض بلا کر شروع کی تھی۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کا ایک بڑا وفد جلد پاکستان اور افغانستان کا دورہ بھی کرے گا۔ میری رائے میں افغانستان نے اگرچہ براہِ راست کوئی فتویٰ نہیں دیا، لیکن ایک واضح راستہ ضرور نکال لیا ہے، جو نہایت مفید اقدام ہے۔”
کابل کې د علماوو پنځه ټکي فتوا شوې ده. دا یو ښه ګام بلل کېږي، مولانا عبد الرب او د اسلامي نظریاتي شورا پخواني مشر ډاکټر قبلہ ایاز. pic.twitter.com/Xhomf1gap0
مولانا نے مزید کہا کہ اجتماع میں ہونے والے فیصلوں میں تین نکات پاکستان کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں:
افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
افغانستان سے کوئی شخص بیرونِ ملک جہاد یا جنگ کے لیے نہیں جائے گا، اور ایسا کرنا امیر کے خلاف بغاوت ہوگا۔
غیر ملکی جنگجو جو افغانستان سے دوسرے ممالک میں کارروائی کرتے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے قرار دیا کہ یہ وہی نکات ہیں جن کا مطالبہ پاکستان طویل عرصے سے کرتا آیا ہے۔ مولانا کے مطابق پاکستان میں بھی اسی نوعیت کی مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی ہے جو خطے میں ہم آہنگی اور امن کے لیے مثبت علامت ہے۔
“اگر کوئی ہماری فضائی یا زمینی خودمختاری کی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے خلاف جہاد ہوگا۔ یہ افغان علما کا حق بجانب مؤقف ہے۔ مجموعی طور پر یہ تمام فیصلے امن اور علاقائی سلامتی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔”
مولانا کا پورا تجزیہ خطے میں بنتے نئے سفارتی ماحول کی نشاندہی کرتا ہے جس میں سعودی کردار کا ذکر بھی اہم ہے۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز کی گفتگو
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اس موقع پر کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان صدیوں پر محیط برادری، ثقافتی روابط اور مذہبی اخوت ایک مضبوط بنیاد رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی اختلافات اپنی جگہ مگر عوامی سطح پر اخوت، بھائی چارہ اور باہمی احترام کا ماحول برقرار رہنا چاہیے، اور یہ اجتماع اسی سمت ایک قدم ہے۔
پاکستانی ماہرین کا مؤقف
پاکستانی ماہرین نے واضح کیا ہے کہ کابل کے اس بڑے اجتماع کے اعلامیے کو ایک مثبت اشارہ سمجھا جاسکتا ہے، کیونکہ اس میں افغان سرزمین کے بیرونی استعمال کی سختی سے نفی کی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ اعلان پاکستان کے دیرینہ مؤقف اور سفارتی بیانیے کی تصدیق کرتا ہے۔ تاہم، اس بات پر زور دیا گیا کہ ماضی میں بھی طالبان نے اس نوعیت کی یقین دہانیاں کرائی تھیں، لیکن عملی نفاذ میں مسائل دیکھنے میں آئے۔ اصل امتحان ان اعلانات پر عملدرآمد ہے، جس کے بغیر کوئی پیش رفت قابلِ اعتبار نہیں ہوگی۔
پاکستانی ماہرین کے مطابق اگر طالبان حکومت ان اعلانات کو عملی سطح پر نافذ کر دیتی ہے تو یہ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے کے امن کے لیے اہم مرحلہ ثابت ہوگا۔
پاک افغان تجارتی اور سیکیورٹی تناظر
مولانا عبد الرب صاحب نے اپنے تجزیے میں پاکستان کے سیکیورٹی اور معاشی چیلنجز کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع، خصوصاً آفریدی علاقوں کی تجارت طورخم سرحد سے جڑی ہوئی ہے، جبکہ بلوچستان میں سپین بولدک کی معیشت بھی براہِ راست افغان تجارت سے وابستہ ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر ان اقدامات سے حالات بہتر ہوتے ہیں، تو دونوں ممالک کی سرحدی تجارت اور عوام کے لیے آسانیوں میں اضافہ ہوگا۔
کیا یہ فتویٰ خطے میں ایک نئے دور کی بنیاد رکھے گا؟
کابل کا یہ اجتماع نہ صرف مذہبی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ خطے کی سفارتی فضا، سیکیورٹی پالیسیوں اور تجارتی راستوں کے مستقبل پر بھی گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔
افغان علما کے پانچ نکاتی فتویٰ نے پہلی بار ایک منظم شرعی پالیسی فریم ورک پیش کیا ہے، جس میں نہ صرف بیرونی عسکریت پر پابندی لگائی گئی ہے بلکہ بیرونی خلافت یا عالمی جہاد کے نظریے کی افغان تناظر میں واضح طور پر نفی بھی کی گئی ہے۔
اگر اس اعلامیے پر حقیقی معنوں میں عمل ہو جاتا ہے، تو پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کم ہو سکتے ہیں، سرحدی تجارت بحال ہو سکتی ہے، اور دونوں ممالک میں اعتماد سازی کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے۔
اب نظر اس بات پر ہے کہ کیا اسلامی امارت ان اعلانات کو زمینی حقائق میں تبدیل کر پائے گی یا یہ بھی صرف ایک اور سفارتی بیان ثابت ہوگا۔
ذرائع کے مطابق یہ تمام خبریں بے بنیاد اور افواہوں پر مبنی ہیں، اور گورنر ہاؤس یا دیگر اہم مقامات پر کسی قسم کی فوجی تعیناتی نہیں کی جا رہی۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے دعوے سراسر غلط ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
مقدمے میں ان پر درج ذیل چار الزامات تھے: سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ تھی، اختیارات اور حکومتی وسائل کا ناجائز استعمال، اور افراد کو غیر ضروری نقصان پہنچانا۔
گزشتہ چند برسوں میں طالبان حکام متعدد بار پاکستان اور عالمی برادری کو اسی قسم کی یقین دہانیاں کرا چکے ہیں، مگر ٹی ٹی پی اور دیگر متعلقہ گروہوں کی سرگرمیاں، حملے اور موجودگی نے ان وعدوں کو غیرموثر بنا دیا ہے۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں اس تازہ فتویٰ کی اہمیت کو پرکھا جائے گا۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور پاکستان اپنے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گا۔