خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک مسافر گاڑی پر فائرنگ سے 6 افراد جاں بحق ہوگئے۔
کوہاٹ ریجنل پولیس افسر عباس مجید مروت نے ایک بیان میں کہا کہ ’لوئر کرم میں مسافر گاڑی پر فائرنگ کے المناک واقعے میں 6 مسافر جاں بحق ہوگئے ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کے بعد سرچ آپریشن شروع کیا گیا، جس میں 12 مشتبہ افراد کو گرفتار کر کے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا اور کوئی بھی علاقائی امن خراب نہیں کر سکے گا‘۔
اس سے قبل ڈسٹرکٹ پولیس افسر ملک حبیب خان نے بتایا کہ نامعلوم حملہ آور فائرنگ کے بعد موقع سے فرار ہوگئے، لاشوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔
واقعے کو ایک بار پھر شیعہ سنی فسادات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ کرم اس سے قبل بھی ایسے واقعات کا شکار رہا ہے تاہم پچھلے کچھ عرصے سے وہاں مکمل امن ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے تھا۔
شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی طوری برادری نے واقعے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے واقعے پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے کے امن کو خراب کرنے کی کوشش ہے، انہوں نے کہا کہ ’اہم شاہراہ پر چیک پوسٹس کے قیام کے باوجود ایسے واقعات افسوسناک ہیں‘۔
انجمنِ حسینیہ پاراچنار کے سیکریٹری حاجی زمین حسین نے بھی حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ’ہم اس واقعے سے صدمے میں ہیں کیونکہ کرم کے لوگ شہید ہوئے ہیں‘۔ انہوں نے متاثرین سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے 6 ماہ میں تُری علاقے میں مکمل امن رہا اور سڑک پر کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔
خیال رہے کہ کرم طویل عرصے سے زمین کے پرانے جھگڑوں سے جڑے قبائلی تنازعات کا شکار ہے، گزشتہ سال ان جھگڑوں میں کم از کم 130 افراد ہلاک ہوئے، کئی ماہ کے تصادم کے بعد رواں سال جنوری میں جنگجو قبائل میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، جس کے بعد جولائی میں لوئر کرم اور صدہ کے قبائل کے درمیان ایک سالہ امن معاہدہ بھی طے پایا۔
اپریل میں بھی لوئر کرم کے علاقے بگن میں نامعلوم افراد نے پاراچنار سے پشاور جانے والے افراد پر حملہ کیا تھا، جس میں 3 افراد جاں بحق اور کئی لاپتا ہوگئے تھے، جس کے بعد ضلع بھر میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
دیکھیں: کالعدم ٹی ٹی پی کی خطرناک حکمت عملی: مساجد و مدارس کا بطور ٹریننگ سینٹر استعمال