کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے اسے پہچان لیا اور فوراً پوچھا، “آپ اتنے دنوں سے کہاں تھیں؟” وہ تھکی ہوئی آواز اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گئیں۔ “باجی، بچے نے غلطی سے خراب دودھ پی لیا تھا۔ اس کا پیٹ خراب تھا اس لیے میں اسے تاریخ پر نہیں لا سکی۔” میں نے تشویش سے پوچھا کہ اس نے خراب دودھ کیسے پی لیا اور کیا وہ بچے کو اپنا دودھ دے رہی ہیں۔ وہ نظریں جھکا کر بولیں، “میں پیٹ سے ہوں… گھر میں کچھ کھانے کو نہیں، جو پڑوسی دے دے وہ کھا لیتے ہیں۔ میرے شوہر کو کام کرنے کی عادت نہیں۔” یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
چپل دکھاتے ہوئے بے بسی سے بولیں، “یہ بھی میری امی نے دلوا کر دی ہے۔ شوہر نے آج تک کچھ نہیں دلایا۔” وہ گویا بچے کی غذائیت کے مسئلے کے ساتھ اپنا دکھ، تھکن اور جذبات بھی ساتھ لائی تھیں۔
تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب ماں ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو بچوں کی غذائیت براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔ کئی جائزوں میں دیکھا گیا کہ جہاں ماؤں میں پریشانی یا ڈپریشن زیادہ تھا وہاں بچوں میں کمزوری، وزن میں کمی اور اسہال جیسی بیماریوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ذہنی دباؤ نہ صرف بچے کی غذا کو متاثر کرتا ہے بلکہ ماں کے روزمرہ فیصلوں جیسے دوائیں دینا، صفائی ستھرائی برقرار رکھنا اور وقت پر ڈاکٹر کے پاس جانا; پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ کم آمدنی والے گھروں میں یہ مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے جہاں نصف سے زیادہ مائیں کسی نہ کسی ذہنی دباؤ کا سامنا کر رہی ہوتی ہیں اور ان کے بچے غذائی قلت کا شکار رہتے ہیں۔
اسی لیے اس روز میں نے صرف نیوٹریشن سپورٹ پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ان کی ذہنی صحت پر بھی بات کی۔ انہیں بتایا کہ مشکل حالات کے باوجود وہ کچھ چھوٹے قدم اٹھا کر اپنی اور بچے کی حالت بہتر بنا سکتی ہیں۔ اگلی ملاقات میں بچہ بہتر تھا اور خاتون کے چہرے پر بھی پہلی بار ہلکی سی راحت دکھائی دی۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کے شوہر نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔ جب گھر کا ذہنی بوجھ ہلکا ہو تو بچے کی صحت بھی سنبھلنے لگتی ہے۔
ایک اور کلینک میں اندرونِ سندھ سے خاتون آئی تھیں جنہیں شدید غصے کی شکایت تھی۔ بات چیت سے معلوم ہوا کہ وہ صبح سے شام تک گھر کا ہر کام اکیلے کرتی ہیں، مگر پھر بھی ساس کی طرف سے تنقید کا سامنا کرتی ہیں۔ جب انسان کی محنت کو سراہا نہ جائے بلکہ اسے کمتر ٹھہرایا جائے تو غصہ فطری ہے، مگر اس غصے کی زد میں سب سے زیادہ ان کے اپنے بچے آ رہے تھے۔ وہ روتے رہتے تھے اور ماں کی گود میں سکون نہیں ملتا تھا۔
تحقیقات کے مطابق، ماں کی مسلسل ذہنی و جذباتی تھکن بچے کی خوراک اور نشونما پر سب سے پہلے اثر ڈالتی ہے۔ کئی مطالعات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذہنی دباؤ میں بے قاعدگی اور بچے کو مناسب وقت پر ٹھوس غذا نہ دینے جیسے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ نتیجتاً بچے کا وزن کم رہتا ہے، وہ بار بار بیمار پڑتا ہے اور اس کی نشوونما سست ہو جاتی ہے۔
جب میں نے اس خاتون کی تھکن کو تسلیم کیا، ان کے احساسات کو نام دیا، تو وہ پہلی بار خود کو سنا ہوا محسوس کرئیں۔ جب ماں دل ہلکا کرتی ہے، تو بچے کی پلیٹ، اس کا دودھ اور اس کی صحت بھی بہتر سمت میں بڑھنے لگتے ہیں۔
یہ دونوں کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ماں کی ذہنی صحت اور بچے کی غذائیت دو الگ حقیقتیں نہیں بلکہ ایک ہی سفر کے دو قدم ہیں۔ جہاں ماں دب جاتی ہے وہاں بچے کی نشوونما بھی رک جاتی ہے، اور جہاں ماں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں وہاں بچے کی زندگی بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ماں کے دل کو بھی اتنی ہی اہمیت دیں جتنی بچے کے وزن کو دیتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ:
- ماں سے پوچھا جائے کہ وہ کیسی ہیں، اور انہیں احساس دلایا جائے کہ تھکن، غصہ یا اداسی کوئی کمزوری نہیں۔
- بچے کے ساتھ ساتھ ماں کی خوراک کا بھی خیال رکھا جائے۔
- گھروں میں تعاون اور مدد کے ماحول کو فروغ دیا جائے۔
- ماؤں کو تنقید کے بجائے سیکھنے اور بہتر ہونے کے مواقع دیے جائیں۔
- خاندانی، سماجی اور ریاستی سطح پر ایسے معاون نظام بنائے جائیں جو ماؤں کو تنہا نہ چھوڑیں۔
- ذہنی صحت کی مدد کو عام، قابلِ رسائی اور غیر شرمندہ کن بنایا جائے۔
کیونکہ حقیقت یہی ہے:
ماں خوش ہو تو بچہ بھی خوش ہوتا ہے۔
اور یہی خوشی ایک صحت مند اور بہتر معاشرے کی بنیاد بنتی ہے۔
دیکھیں: پاکستان میں رواں سال ایڈز کے 81 ہزار 874 کیسز رپورٹ— تازہ اعدادوشمار جاری