تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ملا نسیم حقانی نے اپنے بیانات میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی حمایت کو جہاد سے تعبیر کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ملک بھر کے معروف علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز نے سخت مذمت کرتے ہوئے نسیم حقانی کے بیانات کو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی قرار دے دیا۔
علمائے کرام کے مطابق ٹی ٹی پی کے رہنما کا مؤقف قرآن و سنت کے واضح احکامات سے متضاد ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: جس نے کسی شخص کو ناحق قتل کیا (اس نے) گویا تمام انسانوں کو قتل کر ڈالا (سورۃ المائدہ، آیت: 32)۔
واضح رہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے 1800 سے زائد علمائے کرام نے پیغام پاکستان نامی ایک متفقہ فتویٰ جاری کرتے ہوئے دہشت گردی کی کسی بھی شکل کو اسلام دشمن عمل قرار دیا ہے۔ قرآن پاک کی ایک اور آیت کی روشنی میں انہوں نے واضح کیا: “بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا تو یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے یا سولی چڑھا دیا جائے (سورۃ المائدہ، آیت: 33)۔
مفتی اعظم پاکستان محمد تقی عثمانی نے اپنے ایک بیان میں تحریک طالبان افغانستان کے رہنما نور ولی کے سامنے واضح کیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرنے والے خوارج ہیں اور ریاستِ پاکستان کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔
مولانا عبداللہ خلیل نے کہا کہ خوارج کی تاریخ مساجد، مدارس اور علمائے کرام پر دہشت گردانہ حملوں سے بھری پڑی ہے جو انتہائی مذموم عمل ہے۔ انہوں نے نصیم حقانی کے بیانات کو اسی تسلسل میں قرار دیا۔
مفتی طیب قریشی نے زور دیا کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ اسلام کے نام پر دہشت گردی کو ہوا دینا نہ صرف غلط ہے بلکہ اس سے اسلام کا روشن چہرہ غلط انداز میں ظاہر ہوتا ہے۔
سلفی مکتب فکر کے معروف عالم امین اللہ پشاوروی نے کہا کہ پاکستان میں بم دھماکے اور قتل و غارت میں ملوث افراد اسلام کے دشمن ہیں اور وہ کفار کے راستے پر چل رہے ہیں۔
مولانا رحیم نے کہا کہ کسی اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت کرنا اور اسے جہاد کا نام دینا سراسر گمراہی ہے۔ انہوں نے خوارج کے نظریے کو قرآن و سنت کی روشنی میں مسترد کیا۔
علمائے کرام نے قرآن پاک کے ایک بنیادی اصول کی طرف بھی توجہ دلائی: اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولی الامر (حکمرانوں) کی اطاعت کرو (سورۃ النساء، آیت: 59)۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے رہنما نصیم حقانی کا موقف اس حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے فتویٰ میں واضح کیا ہے کہ موجودہ دور میں کسی فرد کا خود ساختہ طور پر جہاد کا اعلان کرنا غیر شرعی ہے اور ایسی کارروائیاں دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے جنگی حالات میں بھی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور غیر جنگجو افراد کے قتل سے منع فرمایا ہے۔
علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خوارج اور ان کے فکری پیروکار قرآن و سنت کی آیات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں تاکہ اپنے مقاصد کو جواز فراہم کریں۔ ’پیغام پاکستان‘ کے تحت جاری ہونے والے فتوے میں ایسے تمام نظریات کو مسترد کرتے ہوئے نصیم حقانی کے مؤقف کو اسلام کی صریح تحریف قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اگرچہ افغان حکومت نے حقانی کے حالیہ بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، لیکن وہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔ تاہم، افغان حکام کی جانب سے اس کے خلاف کوئی قابل ذکر کارروائی سامنے نہیں آئی ہے۔
دیکھیں: پاکستان نے افغان سفیر کو طلب کرلیا، ٹی ٹی پی سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ