قومی اسمبلی کے اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی۔ اجلاس کے دوران اسپیکر کی زیر صدارت ووٹنگ ہوئی جس میں 231 ارکان اسمبلی نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں صرف 4 ووٹ پڑے۔
تفصیلات کے مطابق، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسپیکر ڈائس کے سامنے احتجاجاً بیٹھے رہے اور ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
ترمیمی بل کے تحت آئین کے آرٹیکل 17 میں تبدیلی کی گئی ہے، جس کے مطابق کسی سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کے لیے اب سپریم کورٹ کے بجائے “آئینی عدالت” سے ریفرنس بھیج کر منظوری لی جائے گی۔
اس کے علاوہ عدالتی و عسکری اصلاحات اور دیگر تمام شقوں کو بھی منظور کر لیا گیا۔ بل اب وزیراعظم کی منظوری کے بعد صدر مملکت کے پاس جائے گا اور ان کے دستخط ہوتے ہی بل آئین پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم سیاسی جماعتوں کے ضابطہ کار کو آئینی فریم ورک کے اندر لانے کے لیے ناگزیر تھی، جبکہ حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں نے اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پارلیمانی سیاست اور جماعتی نظم و ضبط، آرمی قوانین اور عدالتی اختیارات کے حوالے سے ایک نیا باب کھل گیا ہے، جس کے آئندہ اثرات ملکی سیاست پر دور رس ہوں گے۔