افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت کے ایک اور واقعے میں تین طالبان ارکان ہلاک اور زخمی ہو گئے، جس سے ملک میں اندرونی سکیورٹی صورتحال کے بگڑنے اور طالبان کے کنٹرول سے متعلق دعوؤں پر ایک بار پھر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
جبهۂ مقاومتِ ملی (نیشنل ریزسٹنس فرنٹ) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جمعرات کی شام 20 قوس 1404 کو اس کے جنگجوؤں نے صوبہ قندوز میں طالبان کی ملیشیا پر ایک ہدفی حملہ کیا۔ حملے کے نتیجے میں طالبان کے دو ارکان ہلاک جبکہ ایک زخمی ہو گیا۔ بیان کے مطابق یہ کارروائی کندز شہر کے چھٹے پولیس ڈسٹرکٹ کے قریب ایک چیک پوسٹ کے نزدیک کی گئی۔
۳ طالب تروریست در حمله مقاومتگران در کندز کشته و زخمی شدند.
— National Resistance Front of Afghanistan (@NRFafg) December 13, 2025
نیروهای جبهه مقاومت ملی، شام پنجشنبه، ۲۰ قوس ۱۴۰۴، بر ملیشههای گروه تروریستی طالبان در ولایت کندز حمله کردند که در نتیجه آن ۲ عضو این گروه تروریستی کشته شدند و یک تروریست دیگر زخمی شد.
این حمله شب گذشته در نزدیکی…
جبهۂ مقاومتِ ملی کا کہنا ہے کہ حملے میں اس کے جنگجوؤں یا عام شہریوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تنظیم کے مطابق یہ کارروائیاں طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں میں عوام کو “غیر قانونی اور جابرانہ حکمرانی” سے نجات دلانے کے لیے جاری ہیں۔
سکیورٹی ماہرین کے مطابق قندوز میں ہونے والا یہ واقعہ شمالی افغانستان میں طالبان مخالف سرگرمیوں میں اضافے کی ایک کڑی ہے۔ حالیہ مہینوں میں کندز، بغلان، پنجشیر اور بدخشان سمیت متعدد شمالی صوبوں میں مزاحمتی اور مسلح سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ طالبان کا ملک پر مکمل کنٹرول عملی طور پر چیلنج ہو رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال اب ایک ہی نوعیت کے چیلنج تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ مختلف النوع تنازعات میں تقسیم ہو چکی ہے، جس میں طالبان کے خلاف مقامی مزاحمتی کارروائیاں اور دیگر شدت پسند نیٹ ورکس کی سرگرمیاں بیک وقت موجود ہیں۔ اس صورتحال سے نہ صرف افغانستان کے اندر امن کے امکانات متاثر ہو رہے ہیں بلکہ خطے کے ممالک کے لیے بھی سکیورٹی خدشات بڑھ رہے ہیں، کیونکہ مسلسل عدم استحکام سرحد پار دہشت گرد گروہوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کر سکتا ہے۔
قابلِ ذکر ہے کہ نیشنل ریزسٹنس فرنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ مارچ 2024 سے مارچ 2025 کے دوران اس نے افغانستان کے 19 صوبوں میں 401 ہدفی کارروائیاں کیں، جن میں 651 طالبان ہلاک ہوئے، جبکہ صرف کابل میں 126 حملے کیے گئے۔ اس سے قبل اگست 2021 سے ستمبر 2024 تک دستیاب جزوی اعداد و شمار کے مطابق 236 واقعات میں 904 طالبان ہلاک اور 295 زخمی ہوئے، تاہم ان کارروائیوں میں جبهۂ مقاومتِ ملی کے 113 جنگجو بھی مارے گئے۔ ماہرین ان حملوں کو شدت کے اعتبار سے کم سطح کا مگر تسلسل کے باعث اہم قرار دیتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق قندوز میں حالیہ حملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی بحران اب مزید پیچیدہ ہو چکا ہے، جہاں داخلی مزاحمت، مسلح گروہوں کی موجودگی اور طالبان کی حکمرانی کے چیلنجز ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جس کے اثرات مستقبل میں علاقائی استحکام پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
دیکھیں: پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں افغان طالبان اور القاعدہ براہِ راست ملوث، این آر ایف