پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ثالثوں قطر اور ترکیہ کی موجودگی میں استنبول میں ہونے والے مذاکرات کا تیسرا دور کسی قابلِ ذکر پیش رفت کے بغیر ختم ہو گیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد مذاکراتی مقام سے روانہ ہو چکا ہے اور ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوگیا ہے، جہاں سے وہ وطن واپس لوٹے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں تعطل طالبان کی غیر منطقی اور ناقابلِ عمل تجاویز کے باعث پیدا ہوا، جس کے بعد بات چیت کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکی۔ پاکستانی وفد نے واحد مطالبہ ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی اور اس کی تحریری ضمانت دینے کا کیا تھا جس پر طالبان وفد نے آمادگی ظاہر نہیں کی۔
ادھر مذاکرات کی ناکامی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کچھ دیر میں شروع ہوگا جس کی صدارت وزیراعظم باکو سے بذریعہ ویڈیو لنک کریں گے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی مذاکرات کی ناکامی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی مگر افغان فریق نے تعمیری رویہ اختیار نہیں کیا۔
پاکستانی حکام کے مطابق عالمی برادری کو افغان عبوری حکومت پر زور دینا چاہیے کہ وہ دوحہ معاہدہ 2020 کے تحت کی گئی اپنی دو بنیادی یقین دہانیوں پر عمل کرے۔ پہلی یہ کہ افغانستان کے اندر بین الافغان سیاسی مذاکرات کا آغاز کیا جائے، اور دوسری یہ کہ افغان سرزمین کو ایسے گروہوں یا افراد کی پناہ گاہ نہ بننے دیا جائے جو دیگر ممالک کے لیے خطرہ ہوں۔