ایران اور پاکستان اقتصادی تعاون اور علاقائی استحکام کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو نئی جہت دینا چاہتے ہیں۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا پاکستان کا دورہ، ان کے منصب سنبھالنے کے بعد پہلا غیرملکی دورہ اور ایک رسمی سفارتی روایت سے بڑھ کر ہے۔ یہ دورہ ایک مضبوط پیغام ہے کہ دونوں ممالک اب محض روایتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اور نتیجہ خیز شراکت کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف مئی کے آخر میں تہران کا دورہ کر چکے ہیں۔ یہ اعلیٰ سطحی روابط اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایران اور پاکستان اب صرف تاریخی رشتوں پر نہیں بلکہ سیکیورٹی، معیشت اور سفارت کاری میں حقیقی فوائد پر مبنی تعلق چاہتے ہیں جو پورے خطے کو بدل سکتے ہیں۔
برسوں سے، تاریخ اور ثقافت کی قربت کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات باہمی عدم اعتماد، علاقائی مفادات اور بیرونی اثرات سے متاثر رہے ہیں۔ ایران اور پاکستان کے مختلف علاقائی اتحادیوں نے ایک نازک توازن قائم رکھا مگر حالیہ جغرافیائی تبدیلیوں، جیسے چین کی ثالثی میں ایران-سعودی مفاہمت، نے پاکستان کو تہران سے تعلقات مضبوط بنانے کا نیا سفارتی موقع دیا ہے۔
ماضی کی بنسبت بہتر مستقبل کی امید
ایران پاکستان تعلقات کی تاریخ کبھی تعاون، تو کبھی کشیدگی کی مثال بنی۔ حالیہ برسوں میں سرحد پار میزائل حملوں جیسے واقعات نے واضح کر دیا ہے کہ اب ایک باضابطہ اور مستقل تعاون کا ڈھانچہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دورے کو ایک اہم سفارتی اشارہ سمجھا جا رہا ہے جہاں دونوں فریق اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ملک کی سیکیورٹی اور خوشحالی دوسرے ملک سے الگ نہیں ہو سکتی۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس تعلق کو “مستقبل کی اسٹریٹجک سرمایہ کاری” قرار دے کر اس سوچ کی تصدیق کی۔
دونوں ممالک کے لیے مشترکہ خطرات کی شناخت اس حکمت عملی کی بنیاد ہے۔ دونوں ریاستیں سرحدی علاقوں میں شدت پسندانہ سرگرمیوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ دونوں قیادتوں نے دہشتگردی کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے باہمی تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔ انسداد دہشتگردی میں تعاون سے نہ صرف سیکیورٹی بہتر ہوگی بلکہ تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔
تجارتی راہداریوں اور بارڈر مارکیٹس کا معاشی وژن
اس دورے کی سب سے اہم کامیابی 8 ارب ڈالر سالانہ کے تجارتی ہدف کا تعین ہے۔ یہ محض خواہش نہیں بلکہ جغرافیائی قربت کو فائدے میں بدلنے کی سیاسی حکمت عملی کا مظہر ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے تجارت نے سرحدی منڈیوں کے قیام اور موجودہ راہداریوں کو وسعت دینے پر اتفاق کیا ہے تاکہ قانونی تجارت کو فروغ دیا جائے اور اسمگلنگ کم ہو۔ جو اس وقت بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
مشترکہ اقتصادی کمیشن کا آئندہ اجلاس بھی جلد بلانے پر اتفاق ہوا ہے تاکہ باقاعدہ فریم ورک طے کیا جا سکے۔ زراعت، مویشی، توانائی، خدمات اور لاجسٹکس جیسے شعبے خاص توجہ کا مرکز ہوں گے۔ پاکستان نے صوبائی و وفاقی چیمبرز پر مشتمل تجارتی مشن قائم کرنے کی پیشکش کی ہے تاکہ مارکیٹ تک رسائی اور ریگولیٹری مسائل پر ٹھوس پیش رفت کی جا سکے۔ اس کے ساتھ عوامی روابط اور ثقافتی قربت کو بھی اعتماد سازی کا ذریعہ قرار دیا گیا۔
مشکلات کے باوجود بہتر مستقبل کی راہیں ہموار
اگرچہ سمت درست ہے مگر راستہ آسان نہیں ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ امریکی پابندیاں ہیں، جو ایران سے تجارت کرنے والے ممالک پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان کو ایک نازک توازن برقرار رکھنا ہوگا۔ ایک طرف ایران سے بڑھتے تعلقات اور دوسری جانب خلیجی ممالک، خاص طور پر سعودی عرب سے دیرینہ روابط۔ دونوں ممالک کی قیادت پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ معاہدوں پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنائیں تاکہ یہ سفارتی پیش رفت ضائع نہ ہو۔
صدر پزشکیان کا یہ دورہ ایران پاکستان تعلقات میں ایک نئے موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر معاشی ترقی اور مشترکہ سیکیورٹی جیسے مفادات تاریخی کشیدگی اور جیوپولیٹیکل چیلنجز پر غالب آ رہے ہیں تو یہ خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ تجارتی اہداف، انسداد دہشتگردی میں ادارہ جاتی تعاون، اور علاقائی رابطے کو مضبوط کرنے کا وژن یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات استحکام کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ مشترکہ خوشحالی اور باہمی اعتماد کے ساتھ، ایران اور پاکستان نہ صرف اپنی دوستی مضبوط کر سکتے ہیں بلکہ مسلم دنیا کے لیے خود انحصاری کی مثال بھی بن سکتے ہیں۔