سن 1947 کو آزاد ہونے والی ریاست ایک طویل رقبے پر محیط تھی جس میں مشرقی و مغربی پاکستان شامل تھا۔ دو دہائیوں سے زائد عرصے پر مشتمل باہمی محبتیں، قربتیں جو دشمن کو برداشت نہ ہو پائیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنوں کی مایوس کُن پالیسیاں اور غیروں کی سازشوں کے نتیجے میں چشمِ فلک نے یہ منظر دیکھا کہ سن اکہتر میں مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان ایک ایسی جُدائی ڈال دی گئی جو پھر کبھی پُر نہ ہوسکی۔
پاکستان کے دولخت ہونے سے قبل مشرقی و مغربی پاکستان کے باسیوں میں بڑی قربتیں تھیں لیکن اقتدار پر براجمان قائدین کے افعال و اقوال اور تقسیم پر مشتمل نعرے اُدھر تم اِدھر ہم نے اس جلتی پر مزید تیل کا کام کیا، اور ایسا غدارانہ کردار ادا کیا کہ دشمنوں کو مزید سازشوں کا موقع ہی نہ ملا ۔
خیر ان تمام واقعات کے باجود دونوں ممالک کی عوام کےمابین محبتوں میں کبھی کمی نہی آئی بلکہ ایسا انسانیت سوز اور تاریخ کا المناک منظر بھی دیکھا گیا کہ حامیینِ پاکستان کو پابندِ سلاسل کیا گیا، چُن چُن کر پھانسی گھات پر لٹکایا گیا لیکن اس سب کے باوجود بنگلہ میں مقیم مسلمان بھائی ذرہ برابر بھی مصلحت کے آڑے آکر اپنے موقف سے ڈگمگائے نہیں بلکہ سخت چٹان بن کر مقابلہ کیا۔ کیونکہ انکا مؤقف ایک مضبوط نظریاتی سوچ قائم تھا اور نظریات پر کبحھی سمجحوتہ نہیں کیا جاتا ۔
آج سے قبل وہ بنگلہ دیش جو کبھی بھارت کے حکم اور رضا پر سر بسجود ہوا کرتا تھا اب بھارت کی ناراضگی مول لے رہا ہے صرف یہی نہیں بلکہ حالیہ دنوں میں پاکستانی وزیرِ خارجہ کا بنگلہ دیش کا دورہ ایک رسمی دورہ نہیں تھا۔
آج سے پندرہ برس قبل پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی بنگلہ دیش کے دورے پر بسلسلہ سارک کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے گئی تھیں لیکن حنا ربانی اپنے مشن مشن میں کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ حکمرانِ وقت شیخ حسینہ واجد بھارت کی ناراضگی یا دشمنی مول لینا نہیں چاہتی تھیں اور اسی بنا پر پاکستان کی خصوصی دعوت پر نہیں آئیں تھیں لیکن اب خطے کے حالات بالخصوص بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کے تخت الٹنے کے بعد سے پاکستان بنگلکہ دیش تعلقات میں حیران کُن تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ محض پیغامات تک ہی محدود نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے اعلی سیکیورٹی حکام کی پاکستان آمد اور وزیرِ اعظم و فیلڈ مارشل سے ملاقات یہ سب محض اتفاقاً نہیں ہورہا بلکہ پاکستان بنگلہ دیش تعلقات ایک نئے باب میں داخل ہونے جارہے ہیں۔
جبکہ دوسری جانب پاکستان وزیرِ داخلہ کا حالیہ دورہ بنگلہ دیش جو ایک کامیاب دورے کے طور پر مانا جارہا ہے۔ یہ دورہ محض ملاقاتوں پر مشتمل نہیں تھا بلکہ ایک بھارتی تجزیہ نگار کے بقول بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں بنگلہ دیش پاکستان سے متعدد طیارے خریدے گا اور اس معاہدے کو باقاعدہ حتمی شکل بھی دی جا چکی ہے۔ اور یہ معاہدہ عین اس وقت کیا گیا جب بنگلہ دیش کے مرکزی رہنما محمد یونس چین کے خصوصی دورے پر ہیں۔ بقول بھارتی میڈیا کے ان معاہدوں اور قرابتوں کے پیچھے چین کارفرما ہے۔
پاکستان بنگلہ دیش نے کئی دہائیوں سے باہمی نارضگی اور دشمنی مول لیکر اپنا ہی نقصان کیا ہے۔ حالانکہ دونوں ایک خطےمیں آباد ہیں بالخصوص جب دونوں مسلمان ہیں، دین اسلام پر قائم ہیں پھر کیوں بھارت یا دیگر دشمن عناصر کے ہاتھوں کا کھلونا بنتے ہوئے اپنا نقصان کررہے ہیں؟
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سن اکہتر سے قبل پاکستان بنگلہ دیش کے تعلقات جہاں سے متاثر ہوئے تھے وہیں سے اپنے دلوں میں محبت اور قرابت کو جگہ دیتے ہوئےایک دوسرے کا دست و بازو بنیں، اور ایک نئے عزم سے تجدیدِ عہد کریں کہ ہر مشکل وقت میں باہم متحد رہیں گے اور متحد رہتے ہوٗے اپنے دشمنوں کا قلع قمع کریں گے۔