افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی حالیہ پریس کانفرنس نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کابل دراصل کیا چھپانا چاہتا ہے؟ افغانستان مسلسل پاکستان پر داعش خراسان کی پناہ گاہیں مہیا کرنے کا الزام لگا رہا ہے، مگر عالمی اداروں، اقوام متحدہ اور علاقائی رپورٹس سب یہ ثابت کر چکی ہیں کہ داعش کی بنیادی سرگرمیاں ننگرہار، کنڑ اور کابل کے اندر سے چلائی جا رہی ہیں، نہ کہ خیبرپختونخوا یا بلوچستان سے۔
پاکستان بارہا شواہد کے ساتھ دنیا کے سامنے یہ موقف پیش کر چکا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر گروہ افغان سرزمین سے منظم حملے کرتے ہیں۔ اگر کابل واقعی اپنی سرزمین پر کنٹرول رکھتا ہے، تو پھر ان گروہوں کی محفوظ پناہ گاہیں کیوں برقرار ہیں؟ یہ سوال افغانستان کی ریاستی ذمہ داری پر براہ راست نشان لگاتا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے 58 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کا جو دعویٰ کیا، وہ محض پراپیگنڈا پر مبنی ہے۔ پاکستان کے دفاعی ذرائع کے مطابق، سرحدی جھڑپوں کے دوران پاکستانی فورسز نے نہ صرف مؤثر جواب دیا بلکہ حملہ آور چوکیوں کو بھی تباہ کیا۔ ایسے بے بنیاد بیانات کابل کے اندرونی دباؤ اور ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہیں۔
اصل مسئلہ الزام تراشی نہیں بلکہ کارروائی کا ہے۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر مشترکہ انٹیلیجنس اور شواہد پر مبنی تحقیقات کی پیشکش کی ہے تاکہ دہشت گردی کی جڑوں کو ختم کیا جا سکے۔ مگر کابل تاحال اس راستے سے گریزاں ہے۔
افغان حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پراپیگنڈا زمینی حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ نہ ہی بھارت کے ساتھ سفارتی قربت یا سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہمات پاکستان کے عزم کو کمزور کر سکتی ہیں۔ پاکستان واضح کر چکا ہے کہ ہر قسم کی جارحیت کا مؤثر اور متناسب جواب دیا جائے گا، اور اپنی سرزمین کے دفاع میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
یہ وقت الزام تراشی کا نہیں بلکہ شفاف تعاون کا ہے — اگر کابل واقعی امن چاہتا ہے تو ثبوت لائے، الزامات نہیں۔
دیکھیں: بھارت افغانستان کا بہترین دوست اور صف اول کا ساتھی ہے؛ امیر خان متقی