بدعنوانی اور غیر مؤثر حکمرانی کا تصور پاکستان کے ساتھ گزشتہ چند دہائیوں سے منسلک تھا۔ اور یہ تصویر بین الاقوامی میڈیا کی ہیڈ لائنز سے لے کر ملک کے اندر عوامی مقامات تک ہر جگہ موجود تھی۔ مگر اب ایسے شواہد اور تحقیقات سامنے آ رہی ہیں جو اس تصور کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ ادارہ جاتی اصلاحات، ڈیجیٹل انقلاب اور احتساب کی نئی اصلاحات کے باعث پاکستان میں حکمرانی کا نقشہ رفتہ رفتہ تبدیل ہو رہا ہے۔
مذکورہ تبدیلی اب فقط بیان بازی نہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ شہریوں کی روزمرہ زندگی میں اس کے اثرات نظر آنے لگے ہیں۔ نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2025 کے مطابق پچھلے ایک سال میں دو تہائی سے زیادہ پاکستانیوں کو کسی بھی سرکاری دفاتر میں رشوت دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یہ اعداد و شمار اس تصور کی نفی کرتے ہیں کہ ہر سرکاری ملاقات کی قیمت طے ہوتی ہے۔ اسی رپورٹ میں پولیس کے بارے میں عوامی اعتماد میں قابلِ ذکر اضافہ بھی درج ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہونے والی اصلاحات اور نگرانی کے نئے طریقےمثبت نتائج دکھا رہے ہیں۔
احتسابی نظام میں تبدیلی
احتساب کے شعبے میں بھی صورتِ حال کافی تبدیل ہوئی ہے۔ قومی احتساب بیورو جو ایک دور میں سیاسی ہتھکنڈوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا، نے حالیہ برسوں میں اپنے متعلق قائم شدہ تصوارت کے برعکس کارکردگی دکھائی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نیب کی وصولیوں کی کل رقم بارہ اشاریہ تین ٹریلین روپے سے تجاوز کر چکی ہے، جس میں سے ایک بڑی حصہ گزشتہ چند سال کے دوران خزانے میں واپس آئی ہے۔ ماہرین اسے محض کاغذی یا سیاسی کارروائی نہیں بلکہ بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کے خلاف ایک موثر حکمتِ عملی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کی شفافیت کی کوششوں کو اس وقت تسلیم کیا گیا جب ملک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر نکلا۔ اس سفر میں ملک نے اپنے مالی نگرانی کے ڈھانچے کو مضبوط کیا، لین دین کے نظام کو بہتر بنایا اور اداروں کے مابین رابطہ کاری کو فروغ دیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایف اے ٹی ایف سے نکلنا پاکستان کی فقط سفارتی فتح نہیں تھی بلکہ اس بات کے مترادف ہے کہ عالمی برادری نے پاکستان کے مالی شفافیت اور اور ٹھوس اصلاحات کو تسلیم کرلیا ہے۔
مذکورہ تبدیلی کی سب سے مضبوط بنیاد ڈیجیٹلائزیشن ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹیکس نظام میں ڈیجیٹل تبدیلیوں نے غیر متعلقہ مداخلت کے دائرے کو خارج کر دیا ہے۔ خودکار ٹیکس فائلنگ، ریئل ٹائم سیلز ٹریکنگ، ڈیجیٹل آڈٹ کے انتخاب اور آن لائن ادائیگیوں نے نہ صرف نظام کو شفاف بنایا ہے بلکہ پاکستانی عوام کے لیے ٹیکس کے معاملات میں بھی مشکلات کو کم کیا ہے۔
میرٹ پر مبنی بھرتیاں
اسی طرح سرکاری خریداری جو کبھی بدعنوانی کا اڈہ سمجھی جاتی تھی، اب ای۔ پروکیورمنٹ کے ذریعے پاکستانی عوام کے سامنے ہے۔ ٹینڈرز سے لے کر معاہدوں تک ہر تمام مرحلے آن لائن دستیاب موجود ہیں جس سے ہر فیصلہ ریکارڈ پر آ گیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں میرٹ اب محض ایک کاغذ تک ہی محدود نہیں نہیں رہا بلکہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس اور دیگر معیاری امتحانی اداروں کے ذریعے ہونے والے شفاف امتحانات نے سفارش اور اثر و رسوخ کی روایت کو پیچھے چھوڑنا شروع کر دیا ہے، جس سے نوجوان نسل میں ریاستی نظام کے بارے میں اُمید کی کرن روشن ہوئی ہے۔
اسی طرح دیگر شعبوں کی طرح سماجی فلاح وبہبود کے شعبوں میں بھی واضح بہتری آئی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی امداد ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ذریعے مستحقین تک پہنچ رہی ہے، جس نے غیر شفافیت کا تأثر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ نیز نادرا کے ڈیٹا بیس سے مستحقین کی تصدیق نے اس نظام کو نہ صرف شفاف بلکہ مکمل طور پر قابلِ حساب بنادیا ہے۔ مذکورہ نظام خطے کے جدید ترین سماجی تحفظ کے منصوبوں میں شمار ہونے لگا ہے۔
خیال رہے کہ نادرا کی ڈیجیٹل شناختی نظام نے تمام تر تبدیلی کی بنیاد رکھی ہے۔ کروڑوں شہریوں کے بائیومیٹرک ڈیٹا نے بینکاری، مواصلات اور فلاحی خدمات کو ایک مربوط نظام سے آراستہ کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف جعل سازی میں کمی آئی ہے بلکہ ریاستی خدمات کی فراہمی بھی زیادہ منظم ہوئی ہے۔ اسی نظام کی بدولت بایومیٹرک تصدیق کے بغیر سیم کارڈ جاری کرنے کا سلسلہ بند ہوا جو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوا۔
مالیاتی شعبوں میں شفافیت
مالیاتی شعبے میں ڈیجیٹل بینکاری اور فِن ٹیک کے پھیلاؤ نے بھی غیر رسمی معاملات کے دروازے بند کیے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بڑے لین دین کی خودکار نگرانی اور مالیاتی معلومات کی عوامی دستیابی نے نظام میں شفافیت کو نئی جہت دی ہے۔ صوبائی سطح پر بھی یہی رجحان نمایاں ہے جہاں انسدادِ بدعنوانی کے ادارے اور خریداری کے محکمے ڈیجیٹل حل اپنا رہے ہیں۔
آج پاکستان میں حکمرانی کی یہ تبدیلی محض دعووں تک محدود نہیں۔ یہ ڈیٹا، دستاویزات اور ڈیجیٹل سسٹمز کے ذریعے اپنا ثبوت خود دے رہی ہے۔ اگرچہ پرانے تاثرات اب بھی موجود ہیں لیکن زمینی حقائق اور حالیہ تحقیقات ماضی میں قائم شدہ تصورات کے برعکس بتا رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اصلاحات کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا تو پاکستان نہ صرف شفاف حکمرانی کے نئے معیار قائم کر سکے گا بلکہ معاشی استحکام اور عوامی اعتماد کی راہ پر بھی پختہ قدم رکھ سکے گا۔