پاکستان طویل عرصے سے بدعنوانی کے مسئلے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے منفی تاثر کا بھی شکار رہا ہے جو بعض اوقات خود بدعنوانی سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا۔ یہ تاثر بین الاقوامی تبصروں، مخصوص میڈیا بیانیوں اور دہائیوں پر محیط تاریخی پس منظر کی پیداوار ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ بیانیہ واقعی ادارہ جاتی کمزوریوں کی عکاسی کرتا تھا، مگر آج بھی اسی پرانے تصور کو پاکستان کی موجودہ حقیقت کے طور پر پیش کرنا نہ صرف گمراہ کن بلکہ زمینی حقائق سے انکار کے مترادف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کا پاکستان ماضی سے مختلف ہے۔ طرزِ حکمرانی میں تبدیلی اچانک یا انقلابی نہیں، مگر بتدریج، گہری اور ساختی ہے۔ ریاستی نظام کو دستاویزی اور ڈیجیٹل بنایا جا رہا ہے، انسانی صوابدید کو محدود کیا جا رہا ہے، اور اداروں کو عالمی شفافیت کے معیارات سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اصلاحات موجود نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ یہ خاموش اصلاحات شور مچانے والے بیانیوں میں دب جاتی ہیں، اور بیرونی دنیا اب بھی پاکستان کو پرانی عینک سے دیکھنے کی عادی ہے۔
تاثر اور حقیقت کے درمیان یہ فرق سب سے زیادہ عام شہری کے تجربے میں نمایاں ہوتا ہے۔ نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے 2025 کے مطابق 66 فیصد پاکستانیوں نے بتایا کہ انہوں نے کسی سرکاری کام کے لیے رشوت ادا نہیں کی۔ یہ اعداد و شمار اس عمومی تصور کی نفی کرتے ہیں کہ ریاستی معاملات رشوت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ پولیس جیسے اداروں، جن پر ماضی میں عوامی اعتماد کم رہا، ان کے بارے میں رائے میں 6 فیصد بہتری اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ نظام آہستہ آہستہ درست سمت میں بڑھ رہا ہے۔
احتساب کے میدان میں بھی منظرنامہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ قومی احتساب بیورو (ناب) کی مجموعی ریکوریز 12.3 کھرب روپے سے تجاوز کر چکی ہیں، جن میں سے 11.4 کھرب روپے صرف 2 سال اور 9 ماہ میں قومی خزانے میں واپس آئے۔ ہر ایک روپے کے خرچ پر 643 روپے کی ریکوری اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ احتساب اب محض نعرہ نہیں بلکہ نتائج دینے والا عمل بن چکا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اس پیش رفت کا سب سے نمایاں ثبوت ایف اے ٹی ایف کی گری لسٹ سے اخراج ہے۔ یہ کامیابی کسی سفارتی رعایت یا سیاسی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ سخت ساختی اصلاحات، مالی نگرانی کے مضبوط نظام، مشتبہ لین دین پر مؤثر کنٹرول اور ادارہ جاتی تعاون کا ثمر ہے۔ اس عمل نے واضح کر دیا کہ پاکستان شفاف مالی نظام کو محض بیرونی تقاضا نہیں بلکہ قومی سلامتی اور معاشی استحکام کا لازمی جزو سمجھتا ہے۔
ڈیجیٹل طرزِ حکمرانی اس تبدیلی کی ریڑھ کی ہڈی بن چکی ہے۔ ایف بی آر میں ٹیکس نظام کی خودکاری، ریئل ٹائم پوائنٹ آف سیل مانیٹرنگ، رسک بیسڈ آڈٹس اور آن لائن ادائیگیوں نے بدعنوانی کے روایتی راستوں کو نمایاں طور پر محدود کیا ہے۔ جہاں کبھی فائلیں میزوں کے نیچے گردش کرتی تھیں، آج وہاں ڈیٹا، الگورتھم اور ڈیجیٹل ریکارڈ فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔
سرکاری خریداری کا شعبہ، جو ماضی میں بدعنوانی کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب ای-پروکیورمنٹ کے ذریعے شفافیت کی مثال بنتا جا رہا ہے۔ ٹینڈرز کی ڈیجیٹل اشاعت، بولیوں کا آن لائن عمل اور معاہدوں کی عوامی دستیابی نے اقربا پروری اور خفیہ سودے بازی کی گنجائش کم کر دی ہے۔ اسی طرح میرٹ پر مبنی بھرتیوں نے نوجوانوں میں یہ اعتماد بحال کیا ہے کہ سرکاری ملازمت اب سفارش نہیں بلکہ صلاحیت سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
سماجی بہبود کے شعبے میں بھی شفافیت ایک عملی حقیقت بن چکی ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ڈیجیٹل ادائیگیاں اور نادرا کا بائیومیٹرک نظام براہِ راست مالی ترسیل کو ممکن بنا کر درمیانی کرداروں کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ 23 کروڑ سے زائد شہریوں پر مشتمل نادرا کا ڈیجیٹل شناختی نظام حکمرانی، بینکاری اور قانون نافذ کرنے کے اداروں کے لیے احتساب کی مضبوط بنیاد فراہم کر رہا ہے۔ اسی طرح بائیومیٹرک سم تصدیق نے بدعنوانی کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کے خدشات کو بھی کم کیا ہے۔
ڈیجیٹل بینکنگ، موبائل والٹس اور آن لائن ادائیگیوں نے شہری اور ریاست کے درمیان غیر ضروری براہِ راست رابطے کم کر دیے ہیں، جو ماضی میں چھوٹی سطح کی بدعنوانی کا بڑا ذریعہ تھے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بڑے مالی لین دین کی خودکار نگرانی نے مالی شفافیت کو مزید مستحکم کیا ہے۔
یہ تمام شواہد اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی سطحی نہیں بلکہ ساختی اور دیرپا ہے۔ ادارے اب اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے بجائے انہیں تسلیم کر کے اصلاح کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ شفافیت اب محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ بتدریج ایک عملی حقیقت بنتی جا رہی ہے۔
اگرچہ عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں پرانا تاثر اب بھی موجود ہے، مگر ملک کے اندر زمینی حقیقت ڈیٹا، ڈیجیٹل نظام اور دستاویزی نتائج پر مبنی ہے۔ اب چیلنج یہ نہیں کہ اصلاحات کی جائیں، بلکہ یہ ہے کہ ان اصلاحات کو مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ تاثر اور حقیقت کے درمیان موجود خلیج کو پاٹنا پاکستان کے لیے اگلا اور ناگزیر مرحلہ ہے۔