بھارت میں روس کے سابق سفیر اور سابق سیکرٹری خارجہ کنول سبل نے بھی اسے کھلا پروپیگنڈا قرار دیا اور بھارتی میڈیا پر سوال اٹھایا کہ پیوٹن کے دورے سے عین قبل روس مخالف بیانات کو غیر معمولی نمایاں کوریج کیوں دی گئی۔

December 4, 2025

ایچ ٹی این نے تصدیق کی ہے کہ مرحوم کا کسی ممنوعہ یا دہشت گرد تنظیم، بشمول لشکرِ طیبہ، سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ وہ ایک معتدل مذہبی سیاسی جماعت مرکزی جمعیت اہلحدیث کے کارکن تھے، جو پاکستان کی ایوانِ بالا سینیٹ میں بھی نمائندگی رکھتی ہے۔

December 4, 2025

پاکستانی مؤقف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تجارت کی بحالی کے لیے افغان حکومت کو ’’اعتماد سازی کے مؤثر اقدامات‘‘ یقینی بنانا ہوں گے تاکہ دونوں ممالک کے عوام اور تاجروں کی حفاظت اور مفادات محفوظ رہیں۔

December 4, 2025

وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات میں عادل راجہ اور شہزاد اکبر کے خلاف مقدمات اور شواہد پیش کیے

December 4, 2025

علیمہ خان نے اپنے مبینہ جعلی ویڈیو کلپس پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا فیک کلپ بھارت نہیں بلکہ پاکستان ہی سے جاری ہوا ہے، جس کی تصدیق سکائی نیوز نے بھی کی ہے

December 4, 2025

سگار کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے دو دہائیوں میں افغانستان میں قیامِ امن اور ترقی کے لیے 148 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے، لیکن بدانتظامی، بدعنوانی اور ناقص نگرانی کے باعث زیادہ تر اقدامات ناکام رہے

December 4, 2025

پیوٹن کا دورۂ بھارت سفارتی تنازعات کا شکار – نئی دہلی پر امریکی دباؤ اور روسی تعاون کے درمیان توازن میں شدید دباؤ

بھارت میں روس کے سابق سفیر اور سابق سیکرٹری خارجہ کنول سبل نے بھی اسے کھلا پروپیگنڈا قرار دیا اور بھارتی میڈیا پر سوال اٹھایا کہ پیوٹن کے دورے سے عین قبل روس مخالف بیانات کو غیر معمولی نمایاں کوریج کیوں دی گئی۔
پیوٹن کا دورۂ بھارت سفارتی تنازعات کا شکار - نئی دہلی پر امریکی دباؤ اور روسی تعاون کے درمیان توازن میں شدید دباؤ

“یہ دورہ یہ طے کرے گا کہ کیا بھارت واقعی اسٹریٹجک خودمختاری رکھتا ہے یا عالمی دباؤ کے تحت اپنے راستے بدلنے پر مجبور ہو چکا ہے۔”

December 4, 2025

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن آج جمعرات کو بھارت کے دو روزہ سرکاری دورے پر نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب بھارت امریکا اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران اپنی خودمختار اسٹریٹجک پوزیشن برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔

دورے کے شیڈول میں وزیرِاعظم مودی کے ہمراہ نجی عشائیہ، حیدرآباد ہاؤس میں اعلیٰ سطحی مذاکرات، اور دفاعی و تجارتی تعاون کے معاملات کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔

تاہم پیوٹن کے دورے سے قبل ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سفیروں کے مشترکہ مضمون نے سفارتی تنازع کھڑا کر دیا۔ مضمون میں یوکرین جنگ کی ذمہ داری مکمل طور پر روس پر عائد کی گئی اور کہا گیا کہ “روس امن کے حوالے سے سنجیدہ نہیں دکھائی دیتا۔”

بھارتی وزارتِ خارجہ نے مضمون پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اسے “ناقابلِ قبول اور غیر معمولی سفارتی رویہ” قرار دیا۔ وزارت کے سینئر حکام کے مطابق

“کسی تیسرے ملک کے دوطرفہ تعلقات پر عوامی مشورے دینا بین الاقوامی سفارتی اصولوں کے خلاف ہے۔”

بھارت میں روس کے سابق سفیر اور سابق سیکرٹری خارجہ کنول سبل نے بھی اسے کھلا پروپیگنڈا قرار دیا اور بھارتی میڈیا پر سوال اٹھایا کہ پیوٹن کے دورے سے عین قبل روس مخالف بیانات کو غیر معمولی نمایاں کوریج کیوں دی گئی۔

بھارت کی “اسٹریٹجک خودمختاری” کا اگلا امتحان

یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے بھارت ایک نئی عالمی صف بندی کے درمیان پھنس چکا ہے۔

  • امریکا کی جانب سے بھارتی برآمدات پر بھاری ٹیرف اور
  • روس سے تیل کی خریداری پر پابندیوں کی سزا کا خطرہ

ان فیصلوں کے بعد بھارت کی روسی تیل پر انحصار میں کمی آئی ہے جبکہ دفاعی شعبہ بھی امریکی دباؤ کی زد میں ہے۔

سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ:

“اگر بھارت روس سے دور ہٹتا ہے تو اس کے دہائیوں پر محیط دفاعی اتحاد پر سوال کھڑے ہو جائیں گے۔”

اسی دوران روسی پارلیمان نے بھارت کے ساتھ دفاعی لاجسٹک معاہدے — ریسیپروکل ایکسچینج آف لاجسٹک سپورٹ — کی منظوری دے دی ہے، جو پیوٹن کے دورے کی اہمیت اور دونوں ممالک کی اسٹریٹجک وابستگی کا مظہر ہے۔

مودی سرکار ایک مشکل موڑ پر

پیوٹن کا دورہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کی اصل آزمائش بن چکا ہے۔

  • امریکا روسی تیل، تجارت اور دفاعی تعاون محدود کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے
  • اور روس بھارت کو وفاداری اور طویل المدتی شراکت داری کی یاد دہانی کرا رہا ہے

اگر مودی ایک جانب واشنگٹن کا اعتماد برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے تو دوسری جانب ماسکو کو ناراض کرنے کے خطرات موجود ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق:

“یہ دورہ یہ طے کرے گا کہ کیا بھارت واقعی اسٹریٹجک خودمختاری رکھتا ہے یا عالمی دباؤ کے تحت اپنے راستے بدلنے پر مجبور ہو چکا ہے۔”

متعلقہ مضامین

ایچ ٹی این نے تصدیق کی ہے کہ مرحوم کا کسی ممنوعہ یا دہشت گرد تنظیم، بشمول لشکرِ طیبہ، سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ وہ ایک معتدل مذہبی سیاسی جماعت مرکزی جمعیت اہلحدیث کے کارکن تھے، جو پاکستان کی ایوانِ بالا سینیٹ میں بھی نمائندگی رکھتی ہے۔

December 4, 2025

پاکستانی مؤقف میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تجارت کی بحالی کے لیے افغان حکومت کو ’’اعتماد سازی کے مؤثر اقدامات‘‘ یقینی بنانا ہوں گے تاکہ دونوں ممالک کے عوام اور تاجروں کی حفاظت اور مفادات محفوظ رہیں۔

December 4, 2025

وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات میں عادل راجہ اور شہزاد اکبر کے خلاف مقدمات اور شواہد پیش کیے

December 4, 2025

علیمہ خان نے اپنے مبینہ جعلی ویڈیو کلپس پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا فیک کلپ بھارت نہیں بلکہ پاکستان ہی سے جاری ہوا ہے، جس کی تصدیق سکائی نیوز نے بھی کی ہے

December 4, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *