ملک ایک سنگین ٹرانسپورٹ بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے نافذ کردہ ٹریفک آرڈیننس 2025 نے پورے ملک میں پہیہ جام ہڑتال کو جنم دے دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایندھن، ادویات اور روزمرہ ضروری اشیا کی ترسیل متاثر ہو رہی ہے اور اقتصادی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف ایک صوبائی قانون اتنی بڑی بے چینی پیدا کرسکتا ہے یا اصل مسئلہ کہیں زیادہ گہرا ہے؟
نئے آرڈیننس میں بھاری جرمانوں، سخت سزاؤں اور کمرشل گاڑیوں کے لیے کڑی پابندیوں نے ٹرانسپورٹرز کو احتجاج پر مجبور کردیا ہے۔ ٹرانسپورٹ یونینز کا مؤقف ہے کہ حکومت نے ان سے کوئی مشاورت کیے بغیر ایسا قانون نافذ کردیا جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 25 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ مسئلہ محض جرمانوں کا نہیں بلکہ پورے نظام کی اصلاح کا ہے۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ایک معمول بن چکی ہے۔ حادثات، اوور لوڈنگ، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، رشوت اور انتظامی کرپشن نے ٹرانسپورٹ سیکٹر کو ایک مجرمانہ طرزِ عمل کی شکل دے دی ہے۔ ایسے حالات میں اصلاحات ناگزیر تھیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر اصلاحات ضروری تھیں تو کیا انہیں عوام دشمن انداز میں نافذ کرنا بھی ضروری تھا؟
حکومت اور ٹرانسپورٹ سیکٹر کے تصادم میں ہمیشہ نقصان عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ نہ صرف اشیائے خوردونوش کی فراہمی متاثر ہوتی ہے بلکہ اسپتال، ایمرجنسی سروسز اور پورا کاروباری نظام مفلوج ہو سکتا ہے۔ ایسے میں انا، ضد اور طاقت کے کھیل کا نتیجہ کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کرے۔ ٹرانسپورٹرز کی جائز شکایات سنی جائیں، غیر ضروری جرمانوں پر نظرثانی کی جائے، مگر ساتھ ہی ٹریفک ڈسپلن کی بہتری کا عمل بھی مؤخر نہ ہو۔ ایک ایسا متوازن حل سامنے لایا جائے جس میں ریاست کی رٹ بھی قائم رہے اور عوام کی زندگی بھی مفلوج نہ ہو۔
حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ ٹریفک نظام صرف جرمانے بڑھانے سے بہتر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ٹریننگ سسٹم، ٹیکنالوجی، قانون کے یکساں نفاذ، کرپشن کے خاتمے اور جدید ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹرز کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ روڈ سیفٹی اور عوام کا تحفظ کوئی سودا بازی کے نکات نہیں۔
پہیہ جام ہڑتال نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کو ٹرانسپورٹ پالیسی کے حوالے سے مستقل، دیرپا اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت پر مبنی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر اس بار بھی دونوں فریق انا کے محاذ سے پیچھے نہ ہٹے تو نقصان صرف عوام کا ہوگا اور ایک بار پھر ریاستی کمزوری اور انتظامی بدنظمی پوری شدت سے سامنے آئے گی۔
دیکھیں: مستحکم معیشت اور جدید کاروباری حکمت عملی اپنانا ضروری ہے، گورنر اسٹیٹ بینک