تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کئی خاندانوں کو کنر صوبے سے غزنی اور زابل کے علاقوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے خاندانون کی منتقلی کا عمل ایک ماہ پہلے شروع ہوا تھا، جس میں باجوڑ اور مہمند ایجنسی کے لوگوں کو صوبہ کنر کے اضلاع مروارہ، مانوگی، سرکانو، اور دانگام سے منتقل کیا گیا۔
مذکورہ اقدام باہمی رضا مندی سے سے کیا گیا اور خاندانوں کو خصوصی فوجی گاڑیوں کے ذریعے منتقل کیا گیا ہے۔
اہم بات یہ ہیکہ بڑِی تعداد میں منتقلی کا عمل کیا جارہا ہے اندازہ یہاں سے لگاٗیں کہ صرف کنر کے دو گاؤں والی اور شالی سے 25 خاندانوں کو منتقل کیا گیا۔
تاہم ٹی ٹی پی کے دو رکن ملا حیدر اور ملا کامران کے خاندان اب بھی کنر ضلع میں موجود ہیں۔
یہ بھی تحقیق سامنے آئی ہیکہ ان رہنماؤں کی سرپرستی میں عوام سے زبردستی چندہ(بھتہ) لیا جاتا ہے۔
ماضی میں کیے گٗے اقدامات
یہ اقدام ماضی میں بھی کیا گیا تھا، گزشتہ سال فروری میں طالبان نے خوست صوبے کے گولان کیمپ اور ارد گرد کے علاقے اسماعیل خیل ضلع اور پکتیکا کے علاقوں سے درجنوں خاندانوں کو غزنی کے پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا تھا۔ یاد رہے ان کا تعلق بھی ٹی ٹی پی سے تھا۔
اس دوران طالبان کی جانب سے اہم اعلان کیا گیا تھا کہ افغان حکام نے مذکورہ خاندانوں کے ہر فرد کے لیے 40 ڈالر ماہانہ تنخواہ اور گھریلو سامان کی فراہمی کا اعلان کیا تھا۔
حالیہ صورتحال
حالیہ دنوں میں جو خاندان غزنی منتقل کیے گئے ہیں ان میں سے بعض خاندان سہولیات کی عدمِ دستیابی کی وجہ سے واپس اپنے علاقوں میں چلے گئے ہیں۔
اس منتقلی کے عمل سے ٹِی ٹی پی کے اہم و مرکزی رہنما ماورا ہیں صرف عام جنگجوؤں و اہلکارون کے خاندانوں کو قرہ باغ میں منتقل کیا گیا ہے، جبکہ کمانڈروں کے خاندان کابل اور بڑے شہروں میں رہ رہے ہیں۔
افغان طالبان کا منصوبہ
ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں اور انکے خاندانوں کو لوگر،وردک، کندوز، اور بغلان کے صوبوں میں رہنے کی پیشکش کی جا رہی ہے، لیکن وہ اپنے آبائی علاقوں سے دوری کی وجہ سے اسے قبول نہیں کر رہے ہیں۔
دیکھیں: !! ہمسایہ کا سکھ اپنا سکھ اور ہمسایہ کا دکھ اپنا دکھ