کالعدم تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے وزیراعظم کے تازہ بیانات پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے حکومت کے موقف کو مسترد کر دیا اور کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کوئی غیرملکی حمایت یا پڑوسی ممالک کی سرزمین استعمال کرنے والی تنظیم نہیں بلکہ مقامی عوامی “تحریک” ہے۔ ترجمان کے مطابق ریاست کو چاہیے کہ وہ ظلم و جبر بند کرے، لاپتہ افراد کو رہا کرے اور بنیادی مسائل کا حل نکالے، ورنہ مزاحمت جاری رہے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ٹی ٹی پی کو کسی بھی پڑوسی ملک کی سرحد یا سرپرستی کی ضرورت نہیں اور وہ محض “مظلوم قوم” کے جذبے کی عکاس تحریک ہے۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اگر ریاست نے ان بنیادی مسائل کو حل کر دیا تو جنگ رک سکتی ہے، بصورتِ دیگر “مقدس جدوجہد” جاری رہے گی۔ اس اضطراری بیان میں ریاستی اداروں کی پالیسیوں پر سخت تنقید کے ساتھ یہ پیغام بھی شامل تھا کہ مذاکرات یا ملاقاتیں پاکستان کی سرزمین پر طے کی جا سکتی ہیں بشرطیکہ ضمانتیں لیے جائیں۔
ٹی ٹی پی کے اس بیان میں وزیراعظم کے اس موقف کو بھی چیلنج کیا گیا جس میں افغان سرزمین کو “ٹی ٹی پی یا پاکستان” میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہا گیا تھا۔ یاد رہے کہ وفاقی حکومت اور سکیورٹی ادارے بارہا یہ موقف رکھتے آئے ہیں کہ سرحد کے پار پناہ گاہیں اور عبوری حکومت کی جانب سے کسی حد تک “ممنوع صورتحال” دہشت گردانہ حملوں کا باعث بن رہی ہیں۔
تاہم تاحال اس مخصوص بیان کے ردِ عمل میں وفاقی حکومت یا سیکیورٹی حکام کی طرف سے باقاعدہ سرکاری جواب کا حوالہ اس رپورٹ میں شامل نہیں ہے۔
دیکھیں: امن یا فریب؟ ٹی ٹی پی مذاکرات کی تاریخ اور حالیہ مطالبات