سڈنی کے بونڈائی بیچ پر دہشت گرد حملے کے بعد حملہ آور کی شناخت سے متعلق غلط معلومات اور سوشل میڈیا مہمات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں، جنہیں آسٹریلوی حکام نے تاحال مستند قرار نہیں دیا۔
حملے کے فوراً بعد بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، بھارتی اور اسرائیلی مین اسٹریم میڈیا کی جانب سے اس واقعے کو ایک مبینہ پاکستانی شہری “نوید اکرم” سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم اس دعوے کے حق میں اب تک کوئی سرکاری یا تفتیشی ثبوت سامنے نہیں آیا، اور آسٹریلوی پولیس یا دیگر حکام نے کسی بھی فرد کی شناخت باضابطہ طور پر ظاہر نہیں کی۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک تصویر، جسے مبینہ حملہ آور “نوید اکرم” کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، دراصل ایک باڈی بلڈر کی تصویر ہے جو صحت مند نظر آتا ہے۔ اسی تصویر کے حوالے سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک فرد، شیخ نوید (ہوم ٹاؤن: لاہور)، نے فیس بک پر وضاحت جاری کی ہے کہ ان کی تصویر کو غلط طور پر اس واقعے سے جوڑا جا رہا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اس جعلی اور گمراہ کن مواد کو رپورٹ کیا جائے اور اس کے پھیلاؤ سے گریز کیا جائے۔

دوسری جانب، آسٹریلوی میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بونڈائی بیچ پر فائرنگ کے واقعے میں ملوث مبینہ حملہ آور اور اسلحہ چھین کر مزید جانی نقصان کو روکنے والا شہری، دونوں مسلمان ہیں۔ رپورٹس کے مطابق فائرنگ کرنے والے شخص کو “نوید اکرم” جبکہ حملہ آور کو قابو کرنے والے شخص کو “احمد الحمد” کے نام سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ تاہم یہ رپورٹس بھی سرکاری تصدیق سے محروم ہیں اور انہیں حتمی شناخت نہیں کہا جا سکتا۔
The current reporting around the Sydney shooter is rife with contradictions and needs serious correction. The person actually identified as the shooter has a well built body. However, the individual being pushed in what many see as Indian led propaganda linking the shooter to… pic.twitter.com/QvO3uyQUBF
— Wajahat Kazmi (@KazmiWajahat) December 14, 2025
آسٹریلوی حکام نے واضح کیا ہے کہ تفتیش جاری ہے اور متاثرہ خاندانوں کو اطلاع دینے کے عمل کے باعث حملہ آوروں کی شناخت فی الحال عوام کے سامنے نہیں لائی جا رہی۔ پولیس نے عوام اور میڈیا سے اپیل کی ہے کہ غیر مصدقہ معلومات، تصاویر اور ناموں کو پھیلانے سے گریز کیا جائے۔
کچھ غیر تصدیق شدہ اطلاعات میں یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حملہ آور کا تعلق لبنان سے ہو سکتا ہے، تاہم اس حوالے سے بھی کوئی باضابطہ بیان یا ثبوت سامنے نہیں آیا۔
حکام کے مطابق یہ ایک زیرِ تفتیش معاملہ ہے، اور جیسے ہی مستند معلومات دستیاب ہوں گی، انہیں سرکاری طور پر جاری کیا جائے گا۔ اس مرحلے پر کسی فرد، قومیت یا مذہب کو بغیر تصدیق کے حملے سے جوڑنا نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
دیکھیں: پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں افغان طالبان اور القاعدہ براہِ راست ملوث، این آر ایف