ہم سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر نگہداشت دیتے بھی ہیں اور پاتے بھی ہیں۔ کبھی ایک ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی ہے، کبھی ایک نرس کسی مریض کے سرہانے جاگ رہی ہوتی ہے، اور کبھی کوئی بیٹی یا بیٹا اپنے والدین کا سہارا بنتے ہیں۔ یہی وہ لمحات ہیں جو انسانیت کو خوبصورت بناتے ہیں۔
اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے جون 2023 میں اعلان کیا کہ ہر سال 29 اکتوبر کو “بین الاقوامی یومِ نگہداشت و مدد” کے طور پر منایا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں نگہداشت کے کام کو پہچانا جائے، اسے عزت دی جائے اور صنفی مساوات کو فروغ دیا جائے۔
میں اکثر کمیونٹی وزٹس میں دیکھتی ہوں کہ دیکھ بھال کرنے والے لوگ، خاص طور پر خواتین، کتنی خاموشی اور قربانی کے ساتھ دوسروں کا خیال رکھتی ہیں۔ مگر افسوس کہ ان کی یہ محنت اکثر “کام” نہیں سمجھی جاتی۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں 67 فیصد نگہداشت اور صحت کا عملہ خواتین پر مشتمل ہے، پھر بھی انہیں مردوں سے 24 فیصد کم اجرت ملتی ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کی 76 فیصد غیر معاوضہ نگہداشت کا کام بھی خواتین کے ذمے ہے اور اس کی قدر تقریباً 1.5 کھرب امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ سوچنے کی بات ہے، اتنی بڑی محنت مگر اکثر نظر سے اوجھل۔
کووڈ 19 کے دوران جب دنیا رک گئی تھی، تو یہی لوگ آگے بڑھے۔ نرسز، کمیونٹی ہیلتھ ورکرز، مائیں، اور وہ تمام لوگ جو دوسروں کا خیال رکھتے رہے۔ اسی عرصے میں نگہداشت کرنے والوں میں ذہنی دباؤ اور تھکن کی شرح پچاس فیصد سے زیادہ دیکھی گئی، جس کا سب سے زیادہ اثر خواتین، نوجوانوں اور چھوٹے بچوں کے والدین پر پڑا۔
عالمی ادارۂ صحت کہتا ہے کہ اگر دنیا کو بہتر صحت، مضبوط معیشت اور زیادہ منصفانہ معاشرہ بنانا ہے تو نگہداشت کے کام کی قدر اور اس میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ بہتر کام کے حالات، مساوی اجرت، ذہنی صحت کا تحفظ، اور نگہداشت کرنے والوں کے حقوق، یہ سب ایک مضبوط اور انسانی نظامِ صحت کے لیے ضروری ہیں۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نگہداشت صرف عورتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہمیں حکومتوں سے لے کر گھروں تک یہ سمجھنا ہوگا کہ دیکھ بھال بھی ایک کام ہے اور ہر کام کرنے والے کو عزت، سہولت اور سپورٹ ملنی چاہیے۔
ہر صحت مند بچہ، ہر مطمئن مریض، اور ہر مسکراتا بزرگ، ان سب کے پیچھے ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو کسی لالچ کے بغیر، صرف دل سے دیکھ بھال کر رہا ہوتا ہے۔
آئیے، 29 اکتوبر کو ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم نگہداشت کے اس کام کو پہچانیں، دیکھ بھال کرنے والوں کو عزت دیں، اور اس بوجھ کو منصفانہ طور پر بانٹیں۔
کیونکہ جو معاشرہ اپنے دیکھ بھال کرنے والوں کا خیال رکھتا ہے، وہی حقیقت میں صحت مند اور مضبوط معاشرہ ہوتا ہے۔
دیکھیں: یومِ سیاہ: 27 اکتوبر 1947 سے کشمیریوں کی ناقابلِ تسخیر جدوجہد