سن٦۳ ہجری میں میں تاریخ اسلام میں پیش آنے والا واقعہ کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جس نے تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم و ہمت، استقلال،پا مردی، جراءت و بہادری اور اعلا کلمتہ اللہ کے لیے وہ لازوال قربانیاں کی داستانیں رقم کیں جنہیں فراموش کرنا ممکن نہیں۔ کربلا کے کرداروں نے نبوی نہج پہ عمل کرتے ہوئے حق و صداقت کا علم بلند کیا۔
اس واقعے میں ایک طرف ظلم و تعدی کا بازار گرم کرنے والے یزید کا کردار تھا تو دوسری جانب امام عالی مقام کا جذبہ عشقِ اور شوق شہادت تھا۔ خاندان رسول کا ہر فرد حسنین کریمین کے نانا کے لائے ہوئے دین میں کمی بیشی اور جبر و استہزاء کے خلاف برسرپیکار ہو کر خون کی سرخ قبائیں اوڑھے سوئے فردوس چل دیے۔یہاں ایک طرف ننھے اصغر رضی اللہ علیہ کا خون اچھلا تو دوسری جانب علی اکبر رضی اللہ علیہ کے جوان خون نے گلشن محمدی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی آبیاری کی۔ایک طرف ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھما کے جسموں سے خون کے فوارے نکلے تو دوسری طرف عباس رضی اللہ عنہ کا لاشہ خاک کربلا میں تڑپنے لگا۔
چشم فلک نے وہ اندوہ ناک منظر بھی دیکھا جب امام عالی مقام جیسا جری اور عزیمت کا استعارہ شخص بھی بحالت سجدہ جام شہادت نوش کر چکے تھے۔ آج اسلام کی وہ شمع گل ہوئی جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن کیا تھا (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)۔
واقعہ کربلا نے جہاں زندگی کے پر پہلو پہ اپنے گہرے اثرات مرتب کیے وہیں علم و ادب کا میدان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس سانحہ عظیم نے ادباء اور شعراء کے تخیلات کو نئی سمتیں،نئی راہیں بخشنے کے ساتھ ہی اسے وسعتیں عطا کیں۔
اردو ادب پر اگر بغور نگاہ ڈالی جائے تو جہاں شعراء اس واقعے اور اس سے منسوب کرداروں کو اپنی شاعری کی زینت بناتے ہیں وہیں شاعری میں کربلا کی تشبیہات و استعارات کا سہارہ بھی لیتے ہیں۔
محمد نادر وسیم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
اردو غزل کے میدان میں پیاس، وفا ،دشتِ بلا، شام غریباں، مقتل، نوکِ نیزہ، گریہء خون ، خیمہ ،قفس، درد ، خیر و شر، تشہیر، کوچہء عشق، فرات، دھوپ، سجدہ، جراحت،سفر، یتیمی ، تشنہ دہانی ،غربتِ جاں ، چراغِ خیمہ ، آخری وداع،صبر، بے کسی، خنجرِ قاتل، شہیدِ وفا،مسافرت، حُر، گردِ سفر،تیغِ ستم، چہرے پہ خون ملنا، بندشِ آب،سر، مشکیزہ، دریا، پامالی، بازارِکوفہ ، خاکِ مزار یا خاکِ شفا ، وقتِ عصر، چادرِ سر، مجلس اور اس جیسے کئی دیگر استعارات و اشارات کا منبع واقعہ کربلا ہی ہے
مرثیہ نگاری اردو ادب کا اہم حصہ رہا ہے جس بڑا موضوع امام حسینؓ کی شہادت، یزید اور امام کے درمیان معرکۂ کربلا ہے۔
اردو شاعری میں میر انیس کا شمار بڑے مرثیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ میر انیس کے ہاں مرثیہ نگاری میں فصاحت و بلاغت،واقعہ نگاری اور منظر نگاری،تشبیہات و استعارات، کردار نگاری ،قصیدے کی شان و شوکت اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔
آپ نے اپنی شاعری میں میدان کربلا کی منظر نگاری جس شاندار انداز سے کی ہے اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحطِ آب تھا
جوش ملیح آبادی جو “شاعر انقلاب” کہلائے۔ تحریک آزادی کے دوران انہوں نے ایک مرثیہ لکھا جس کا عنوان”حسین اور انقلاب” ہے اس میں اپنے خیالات کا اظہار کربلا کے استعاروں سے کیا ہے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
مولانا محمد علی جوہر جو تحریکِ خلافت کے قائدین میں سے تھے اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ انکی ایک غزل کا شعر زبانِ زدِ عام ہے۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
عظیم علامہ محمد اقبال کی شاعری میں جگہ جگہ کربلا کے استعاروں کا ذکر ملتا ہے۔آپ امام حسین رضى الله عنہ کے مقام و مرتبہ اور اہل کوفہ کی بے وفائی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں۔
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
علامہ محمد اقبال نے بالِ جبریل میں ” ذوق و شوق” کے نام سے نظم لکھی اس میں واقعہ کربلا کے متعلق تلمیحات یوں بیان کرتے ہیں۔
صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہء وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
لہذا سانحہ کربلا کے کرداروں اور استعاروں کو اردو شاعری میں جا بجا تلاش کیا جا سکتا ہے۔
مسلمان شعرا کے علاوہ اردو زبان کے بعض غیر مسلم شعراء و ادباء کی تخلیقات بھی کربلا کے استعارات اور افکار سے بھری پڑی ہیں۔
طیبہ بخاری اس بارے لکھتی ہیں کہ
ہندو شاعروں میں منشی دیشو پرشاد ماتھر لکھنوی کو اہل بیت اطہار ؓ کی شان بیان کرنے کی وجہ سے خاص شہرت حاصل ہوئی وہ لکھتے ہیں:
مسلمانوں کا منشاء عقیدت اور ہی کچھ ہے
مگر سبطِ نبیؐ سے میری نسبت اور ہی کچھ ہے
معروف مصنف تھامس کارلائل کربلا سے حاصل ہونیوالے درس کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ ’’کربلا کے المیے سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ امام حسینؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا۔ آپؓ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ حق اور باطل کی کشمکش میں تعداد کی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور بہادری کا جو سبق ہمیں تاریخ کربلا سے ملتا ہے وہ کسی اور تاریخ سے نہیں ملتا۔‘‘
ایک عیسائی دانشور ڈاکٹر کرسٹوفر اپنا نظریہ یوں بیان کرتے ہیں ’’کاش دنیا امام حسینؓ کے پیغام‘ ان کی تعلیمات اور مقصد کو سمجھے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی اصلاح کرے۔‘‘
حضرت امام حسینؓ کے حوالے سے عیسائی مبلغ ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مورنیو نے اپنی عقیدت کچھ اس طرح قلم بند کی کہ ’’امام حسینؓ صداقت کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہے اور زندگی کی آخری گھڑی تک مستقل مزاج اور اٹل رہے۔ آپؓ نے ذلت پر موت کو ترجیح دی۔ ایسی روحیں کبھی فنا نہیں ہوسکتیں اور امام حسینؓ آج بھی انسانیت کے رہ نماؤں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔‘‘
جی بی ایڈورڈ کا کہنا ہے’’تاریخ اسلام میں جس باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے،آپؓ کو حسینؓ کہا جاتا ہے۔ آپؓ حضرت محمدؐ کے نواسے‘حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے بیٹے‘ لاتعداد صفات و اوصاف کے مالک ہیں۔ آپؓ کے عظیم و اعلیٰ کردار نے اسلام کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتے تو آج حضرت محمدؐ کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا، یوں کہنا چاہیے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔“
مہاراج یوربندسرنٹور سنگھ کہتے ہیں’’قربانیوں ہی کے ذریعے تہذیبوں کا ارتقا ء ہوتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کیلئے ایک قابلِ فخر کارنامے کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؓ نے جان دیدی لیکن انسانیت کے رہنما اصولوں پر آنچ نہیں آنے دی۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے زیر قدم امن اور مسرت دوبارہ بنی نوع انسان کو حاصل ہوسکتی ہیں بشرطیکہ انسان ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے۔
مشہور افسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں’’معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے۔
ایک سکھ لیڈر سردار کرتار سنگھ نے اپنے احساسات یوں بیان کئے کہ ’’حضرت محمدؐ نے جو انسانیت کے بہترین اصول پیش کیے تھے امام حسینؓ نے اپنی قربانی اور شہادت سے انہیں زندہ کردیا۔ حسینؓ کا اصول اٹل ہے
اردو ادب کے شہرہ آفاق نقاد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی کتاب ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ راہِ حق پر چلنے والے جانتے ہیں کہ صلوٰۃ عشق کا وضو خون سے ہوتا ہے اور سب سے سچی گواہی خون کی گواہی ہے۔ تاریخ کے حافظے سے بڑے سے بڑے شہنشاہوں کا جاہ و جلال‘ شکوہ و جبروت‘ شوکت و حشمت سب کچھ مٹ جاتا ہے لیکن شہید کے خون کی تابندگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔آگے چل کر لکھتے ہیں کہ
کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت وہ خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنتِ رسولؐ اور دین ابراہیمیؑ کی بنیادوں کو ہمیشہ کیلئے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔ اس نے اسلام کو جس کی حیثیت اس وقت ایک نوخیز پودے کی سی تھی‘ استحکام بخشا اور وقت کی آندھیوں سے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا۔‘‘
معروف ہندو شاعر رام پرکاش ساحر کہتے ہیں ہے
حق و صداقت مرا مسلک ساحر ہندو بھی ہوں شبیرؓ کا شیدائی بھی
محرم ۱۹۱۸ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے طویل مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسینؓ ‘‘ لکھا جس کاایک شعر پیش خدمت ہے
قرآں کلام پاک ہے، شبیرؓ نور ہے دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے
سرکش پرشاد نے امام عالی مقام ؓ سے اپنی عقیدت کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا
حسین ابن علیؓ ہیں فرد یکتا کوئی مظلوم ایسا تھا،نہ ہوگا
ولائے سبط پیغمبرؐ ہے نعمت، یہ نعمت ہو عطا ہر اک کو مولا
ایک اور ہندو شاعر منشی لچھمن داس مرثیہ گوئی میں منفرد مقام رکھتے ہیں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو
کم جس کی خیالیں ہوں‘ وہ تنویر نہیں ہوں
بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں
پابندِ شریعت نہ سہی گو کہ میں
لچھمن ہندو ہوں مگر دشمن شبیرؓ نہیں ہوں
عقل و آگہی کے انہی افکار ونظریات کو دیکھتے ہوئے جوش ملیح آبادی نے لازوال جملے کہہ ڈالے
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ
چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسینؓ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
الغرض یہ کہ کربلا اور امام عالی مقام سمیت دیگر کرداروں کو دنیا آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔آپ نے بدر و حنین اور یمامہ و یرموک کے اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ رکھا۔ ان عظیم نفوس نے اپنی قربانیوں سے حق و صداقت کی وہ ضیائیں روشن کیں جن کو ماند کرنا کسی تخم بد کی دسترس میں نہیں ہے