اسلام آباد — 30 مئی 2025: افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی جلد اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ ان کا یہ سفر پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ عرصے میں بڑھنے والے اعلیٰ سطحی تبادلوں کی عکاسی کرتا ہے۔ دونوں اطراف کے حکام اصولی طور پر دورے پر متفق ہوچکے ہیں اور اب تاریخ متعین کرنا باقی ہے۔
روایتی سفارتی دوروں کے برعکس یہ دورہ تین روزہ ہوگا جس کے دوران دونوں ممالک سلامتی، تجارت، مہاجرین اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اقدامات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
یہ دورہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے کابل کے اپریل کے دورے کے بعد ہو رہا ہے جو تین سال میں پہلا دورہ تھا۔ ان کا یہ قدم کشیدگی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے اور مستقبل میں ہم آہنگی کی راہ ہموار کرتا ہے۔
اس سے قبل مارچ میں پاکستان کے خصوصی ایلچی سفیر محمد صادق کی قیادت میں ایک وفد نے کابل کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر دونوں فریقوں نے سرکاری تبادلوں کے لیے ایک راہنما خطوط مرتب کیے تھے جس میں وزراء اور اعلیٰ عہدیداروں کے باقاعدہ دوروں کے ذریعے اعتماد بحال کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔
کابل سے سلامتی کی علامات
حالیہ پیشرفت میں کابل نے پاکستان میں ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک افغان شہریوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ حکام نے گروپ میں بھرتی کرانے والے معاونین کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ یہ اقدامات ایک اہم پالیسی تبدیلی کی علامت ہیں۔
اس تبدیلی کے علاوہ، طالبان کے ایک سینئر کمانڈر سعیداللہ سعید نے حال ہی میں غیر مجاز جہاد کے خلاف انتباہ جاری کیا۔ ایک پولیس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف امیر (سربراہ) ہی جہاد کا اعلان کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ریاستی منظوری کے بغیر لڑتے ہیں، وہ “فساد” (خرابی) کررہے ہیں — جہاد نہیں۔
مشاہدین کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی پاکستان اور چین کی مشترکہ کوششوں کے بعد آئی ہے۔ جوابی اقدام کے طور پر دونوں ممالک نے افغان حکومت کو معاشی اور سفارتی حمایت فراہم کی ہے۔
افغان وزیر خارجہ کا دورہ – سطحی سفارتی تعلقات کی بحالی
اسلام آباد اب سفارتکاروں کے تبادلے کے ذریعے سفارتی تعلقات کو اگلے درجے پر لے جانے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو طالبان کی عبوری حکومت کو ایک اہم تسلیم کے طور پر دیکھا جائے گا۔
متقی کا دورہ محض علامتی سفارتی رابطے سے زیادہ ہے۔ یہ اعلیٰ سطحی تبادلوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو اجاگر کرتا ہے جو عملی تعاون کے ذریعے خطے کی استحکام کو نئی شکل دے سکتا ہے۔ یہ مسلسل مکالمہ عدم اعتماد سے محتاط تعاون کی جانب ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر دونوں فریق عہد پر قائم رہے تو یہ تعلقات طویل مدتی امن اور باہمی معاشی فوائد کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔