اڈانی گروپ اور نئی دہلی کی تشویش
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کا اثر صرف تل ابیب یا تہران تک محدود نہیں رہا۔ یہ بحران اب حیفہ بندرگاہ، حیدرآباد کے ڈرون کارخانوں اور نئی دہلی کی خارجہ پالیسی تک پہنچ چکا ہے۔
بھارت کے نمایاں کاروباری ادارے اڈانی گروپ کی مشرق وسطیٰ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری، خاص طور پر اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ میں، ایران-اسرائیل کشیدگی کے باعث غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
حیفہ بندرگاہ خطرے میں IMEC راہداری
سال 2023 میں اڈانی گروپ نے اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ میں 1.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے 70 فیصد حصص حاصل کیے۔ یہ سرمایہ کاری صرف ایک معاشی قدم نہیں تھی بلکہ بھارت-اسرائیل شراکت داری کا سیاسی پیغام بھی تھی، جو “انڈیا-مڈل ایسٹ-یورپ اکنامک کاریڈور (IMEC)” کا حصہ تھی۔
مگر موجودہ کشیدگی کے پیش نظر IMEC منصوبے کے ساتھ ساتھ اڈانی گروپ کی اسٹریٹجک پوزیشن بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق، گروپ کو ممکنہ طور پر اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
دفاعی شراکت داری
اڈانی گروپ کا اسرائیل سے تعلق صرف بندرگاہوں تک محدود نہیں۔ 2018 میں گروپ نے اسرائیلی دفاعی کمپنی “Elbit Systems” کے ساتھ مل کر حیدرآباد میں Hermes 900 ڈرونز تیار کرنے کا منصوبہ شروع کیا، جو اسرائیلی افواج کے زیرِ استعمال ہیں۔
یہ تعاون صرف کاروباری نہیں بلکہ نظریاتی ہے۔ ہندو اور صیہونیت کی ہم آہنگی، خطے میں بلوچستان اور ایران مخالف بیانیہ تشکیل دینے کی ایک بڑی وجہ ہے، جس میں اڈانی گروپ بھی ایک اسٹریٹجک کڑی ہے۔
خاموش سفارت یا مالی مصلحت؟
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں بھارت کی خاموشی، جہاں دیگر رکن ممالک نے اسرائیل پر تنقید کی، محض سفارتی نہیں بلکہ مالیاتی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
وزیر اعظم مودی کے قریبی تصور کیے جانے والے گوتم اڈانی کے مفادات کو محفوظ رکھنا اب بھارت کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پہلو بنتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اڈانی گروپ کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا مطلب، سیاسی و اقتصادی دونوں محاذوں پر دباؤ ہے۔
دیکھیئے پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت