حال ہی میں بھارت نے امریکہ کو ایک پارلیمانی وفد بھیجا جو سفارتی کامیابی کا ضامن ہے۔ جس کا بنیادی مقصد امریکی حکومت اور کانگریس کے اراکین سے رابطہ کرنا تھا۔ تاہم، ان کی کوششیں زیادہ توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ نہ تو امریکی صدر اور نہ ہی وزیر خارجہ نے بھارتی وفد سے ملاقات کی، جو ٹرمپ کی حمایت کے ذریعے پاکستان کی سفارتی کامیابی کو واضح کرتا ہے۔
یہ نتیجہ طویل عرصے سے قائم سفارتی اصولوں کے مطابق ہے۔ موجودہ ضوابط کے تحت امریکی صدر پارلیمانی وفود سے ملاقات نہیں کرتے۔ اسی طرح، وزیر خارجہ صرف انتہائی اہم معاملات پر ہی ایسی میٹنگز کرتا ہے۔ لہٰذا، بھارتی ٹیم رسمی حدود کے اندر ہی کام کر سکی اور اسے محدود کوریج ہی ملی۔
اپنے مقاصد کے باوجود وفد اعلیٰ سطحی سفارتی حلقوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ نتیجتاً، یہ مشن بغیر کسی نمایاں سرخی یا پیش رفت کے اختتام کو پہنچا۔
سفارتی کامیابی: ٹرمپ کا اعلان ایک بڑا سفارتی اقدام
اس کے برعکس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذاتی طور پر پاکستانی وفد کے آنے کا اعلان کیا، جس نے سفارتی حلقوں میں حیرت اور بحث پیدا کر دی۔ روایتی طور پر، ایسے اعلانات محکمہ خارجہ یا میزبانی کرنے والے اداروں کی طرف سے کیے جاتے ہیں — نہ کہ سابق سربراہانِ مملکت کی طرف سے۔
ٹرمپ کا یہ عوامی اعلان سفارتی آداب کی ایک واضح خلاف ورزی ہے۔ یہ معیاری طریقہ کار کو نظرانداز کرتا ہے اور بین الاقوامی سفارت کے روایتی اصولوں کو متاثر کرتا ہے۔ مزید یہ کہ، یہ خارجہ تعلقات میں بڑھتی ہوئی “ذاتی مداخلت” کی نشاندہی کرتا ہے، خاص طور پر جب سابق رہنما موجودہ سفارتی معاملات میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔
تجزیہ کار اس لمحے کو غیر رسمی سفارت کے اثرات کا ایک اہم موڑ سمجھتے ہیں۔ جہاں بھارتی وفد روایتی راستے پر چلتے ہوئے کوئی خاص اثر نہیں بنا سکا، وہیں ٹرمپ کی پاکستانی ٹیم کے ساتھ وابستگی نے صورتحال کو یکسر بدل دیا۔
اس خلاف ورزی کے کئی مضمرات ہیں۔ یہ اشارہ کرتی ہے کہ اب غیر رسمی کردار بھی سرکاری بیانیے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ، یہ روایتی سفارت کاروں کو ان بدلتے ہوئے رجحانات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ ردعمل سفارتی کامیابی میں گہرے ہوتے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ عہدے سے باہر ہونے کے باوجود، ٹرمپ کی پاکستانی وفد کی حمایت ایک اہم سفارتی اشارہ ہے اور جنوبی ایشیائی خارجہ پالیسی کے مشاہدہ کاروں کے لیے ایک سبق۔