قاہرہ، 28 مئی 2025 — ہزاروں فلسطینیوں نے منگل کے روز جنوبی غزہ میں امدادی مراکز پر دھاوا بول دیا، حالانکہ ان مراکز پر امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ فاؤنڈیشن کی جانب سے بایومیٹرک اسکریننگ اور سیکیورٹی چیک کی تنبیہات جاری کی گئی تھیں۔ تقریباً تین ماہ سے جاری اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے جنگ زدہ علاقے میں شدید غذائی قلت نے اس انتشار کو جنم دیا۔
بھوک کا نگرانی کے خوف کا غلبہ
عوام کی مایوسی نے نگرانی کے خوف کو شکست دی۔ ابتدائی ہچکچاہٹ کے باوجود، لوگ بڑی تعداد میں غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے مراکز میں داخل ہو گئے، جس نے 8,000 فوڈ باکسز تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا — جو کہ تقریباً 4,62,000 کھانوں کے لیے کافی ہیں۔ بہت سے فلسطینیوں نے ابتدائی طور پر ان مراکز سے گریز کیا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ بایومیٹرک اسکریننگ، خصوصاً چہرے کی شناخت، کے ذریعے اسرائیل ان کی نگرانی اور ممکنہ ہدف بندی کرے گا۔ تاہم، شدید بھوک نے انہیں یہ خطرہ مول لینے پر مجبور کر دیا، جو غزہ میں جاری انسانی بحران کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق، رفح — جو اب مکمل طور پر اسرائیلی افواج کے کنٹرول میں ہے — میں لوگ پیدل اور گدھا گاڑیوں پر بڑی تعداد میں امدادی مراکز کی طرف آئے۔ سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا گیا کہ باڑیں گرا دی گئیں اور لوگ امدادی سامان کی طرف دوڑ پڑے۔ اسرائیلی افواج نے شروع اور آخر میں ہوائی فائرنگ کی تاکہ صورت حال پر قابو پایا جا سکے۔ اس ہنگامے کے نتیجے میں امداد کی تقسیم کا نازک نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، جس سے وہ مقامی باشندے مزید پریشان ہو گئے جو مکمل طور پر امدادی خوراک پر انحصار کرتے ہیں۔ فلسطینیوں نے ان حالات اور امداد پر اثر انداز ہونے والی سیاسی کشمکش پر شدید مایوسی کا اظہار کیا۔
حماس اور امدادی مراکز کا GHF سے اظہارِ لاتعلقی
حماس اور امدادی اداروں نے GHF کے کردار کو مسترد کر دیا۔ مقامی مزاحمتی گروپ حماس نے فاؤنڈیشن پر اسرائیلی قبضے کے زیرِ اثر کام کرنے کا الزام عائد کیا۔ غزہ کے میڈیا آفس کے سربراہ اسماعیل الثوابتہ نے اس افراتفری کا ذمہ دار GHF کی ناقص انتظامیہ کو قرار دیا۔ بین الاقوامی تنظیموں، جن میں اقوامِ متحدہ اور ریڈ کراس شامل ہیں، نے بھی GHF کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور اسے غیر جانبداری کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔
بین الاقوامی ریڈ کراس (ICRC) کے کرسچن کارڈن نے خبردار کیا کہ امداد کو سیاسی رنگ دینا خطرناک ہے اور امداد کی تقسیم صرف انسانی ضرورت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے بھی کہا کہ اگرچہ اسرائیل محدود پیمانے پر امداد کی اجازت دیتا ہے، لیکن کئی انتظامی اور جسمانی رکاوٹیں امداد کی رسائی میں شدید رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
نیا امدادی نظام، عدم اعتماد میں اضافہ
اسرائیلی فوج نے انکشاف کیا کہ اس نے حالیہ ہفتوں میں غزہ بھر میں چار امدادی مراکز قائم کیے ہیں، جن میں سے دو منگل کو رفح میں فعال ہوئے۔ اسرائیلی حکام نے اس نئے نظام کو حماس سے منسلک افراد کی شناخت کرنے کا مؤثر طریقہ قرار دیا۔ تاہم، امدادی ادارے اور فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ یہ سخت جانچ پڑتال کا عمل خفیہ معلومات کے حصول کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
کئی مقامی باشندوں نے امدادی مراکز پر چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی پر تشویش ظاہر کی، اور شبہ ظاہر کیا کہ اسرائیلی حکام ان کا ڈیٹا حاصل کر سکتے ہیں۔ 55 سالہ رہائشی ابو احمد نے کہا:
“مجھے ڈر ہے۔ کہتے ہیں یہ کمپنی اسرائیلی ہے۔ حتیٰ کہ حماس نے بھی وہاں جانے سے منع کیا ہے۔”
تاہم، ہزاروں افراد نے بھوک کے باعث ان انتباہات کو نظرانداز کر دیا، جو اس بات کی علامت ہے کہ عام فلسطینیوں کے لیے صورتِ حال کس قدر سنگین ہو چکی ہے۔