ٹی ٹی پی نے افغان حکام پر اپنے ارکان پر حملوں کو نظرانداز کرنے کا الزام لگا دیا، جس سے تعلقات میں تناؤ اور کابل کے انسدادِ دہشت گردی کردار پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
کابل میں سیکیورٹی خدشات سے اہم اجلاس کشیدہ
کابل – افغان وزارت داخلہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے وفد کے درمیان ہونے والا ایک اہم اجلاس سیکیورٹی خدشات کے باعث کشیدگی کا شکار ہو گیا۔ کابل میں ہونے والی اس ملاقات میں جماعت نے اپنے ارکان پر ہونے والے مسلسل حملوں پر شدید احتجاج کیا۔
اس وفد کی قیادت سینئر ٹی ٹی پی کمانڈر ملا فقیر محمد نے کی، جنہوں نے افغان حکام پر یہ الزام لگایا کہ وہ کارکنان کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔
ٹی ٹی پی کے مطابق، ان پر حملہ اور اغوا کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن افغان حکام نے اس بارے میں کوئی کاروائی تو دور کی بات سنجیدہ قدم بھی نہیں اٹھایا۔
ٹی ٹی پی کا افغان حکام پر عدم کارروائی کا الزام
ٹی ٹی پی نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان پر 240 سے زائد حملے ہو چکے ہیں، جبکہ 143 ارکان کو اغوا کیا گیا یے اس کے باوجود کسی بھی حملہ آوروں یا اغوا کاروں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
ٹی ٹی پی نے اس غفلت پر سخت تنقید کی۔ ایک رکن نے اجلاس میں کہا
افغان حکومت اپنے داخلی دشمنوں کو چند گھنٹوں میں ڈھونڈ لیتی ہے مگر جب ہم پر حملے ہوتے ہیں تو یہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
افغان حکومت کی خاموشی
افغان حکام کی جانب سے نہ تو اجلاس کے حوالے سے کوئی بیان جاری کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کے الزامات پر کوئی تبصرہ کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ نے تاحال عوامی سطح پر کوئی ردِعمل نہیں دیا، جس سے اس بارے میں قیاس آرائیاں بڑھ رہی ہیں کہ کابل اور افغانستان میں موجود ان کے دھڑوں کے درمیان تعلقات میں ممکنہ تبدیلی آ سکتی ہے۔
ٹی ٹی پی کی کھلی تنقید یہ بات واضح کرتی ہے کہ ان میں اپنے میزبانوں کی جانب سے لاپرواہی اور امتیازی سلوک پر شدید مایوسی پائی جا رہی ہے۔
سرحدی تعاون کے دوران بڑھتی ہوئی کشیدگی
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان نے سرحدی سیکیورٹی اور انٹیلیجنس تعاون میں کچھ پیشرفت کی ہے۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں سیکیورٹی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم ایسے واقعات ان کوششوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اگر سیکیورٹی خدشات کا حل نہ نکالا گیا تو یہ نہ صرف افغانستان کی انسدادِ دہشت گردی کی ساکھ کو متاثر کریں گے بلکہ خطے میں استحکام کے لیے بھی خطرہ بھی بن سکتے ہیں۔ اس سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد کی فضا مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔