کشمیر سے متعلق بھارت کا تزویراتی پیغام یورپ میں خاطر خواہ اثر ڈالنے میں ناکام رہا ہے، جہاں میڈیا نے تنقیدی رویہ اپنایا اور یورپی یونین نے محتاط مؤقف اختیار کیا۔ بھارت کی بھرپور سفارتی کوششوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی آدم پور ایئربیس پر کی گئی اہم تقریر کے باوجود یورپی ذرائع ابلاغ میں اس بیانیے کی کوریج محدود اور محتاط رہی۔
یورپ کے بڑے اشاعتی اداروں نے بھارت کے اس موقف کو بڑی حد تک نظر انداز کیا کہ پاکستان کی طرف سے مبینہ دہشت گردی کو کشمیر کے تناظر میں اجاگر کیا جائے۔ یہ صورت حال بھارت کے اندر تشکیل پانے والے بیانیے اور مغربی صحافتی ترجیحات کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کی عکاسی کرتی ہے۔ حتیٰ کہ ریاستی دورے اور سفارتی کوششیں بھی یورپی میڈیا کے لہجے میں کوئی خاص تبدیلی نہ لا سکیں۔
یورپی یونین کا غیر جانب دار مؤقف
یورپی یونین نے حارت کے تزویراتی پیغام پر ایک محتاط اور غیر جانب دار مؤقف اختیار کیا۔ برسلز سے جاری ہونے والے بیانات میں “تحمل” اور “کشیدگی میں کمی” کی اپیل کی گئی، لیکن کسی فریق کو براہِ راست موردِ الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ تاہم، یورپی پارلیمنٹ کے چند بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اراکین نے کشمیر میں بھارت کی پالیسیوں پر تنقید کی اور انسانی حقوق کی صورت حال پر سوال اٹھائے۔
یہ ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ یورپی یونین بھارت کے ساتھ محاذ آرائی سے بچنا چاہتی ہے، لیکن ساتھ ہی انسانی حقوق کے معاملات پر سول سوسائٹی اور بعض سیاسی حلقوں کے خدشات کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتی۔
بین الاقوامی میڈیا کی محتاط رپورٹنگ
ڈی ڈبلیو (Deutsche Welle) اور فرانس 24 جیسے بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے بھارت کے انسدادِ دہشت گردی اور علاقائی سالمیت کے دعووں کو نشر تو کیا، لیکن رپورٹنگ میں شکوک و شبہات غالب رہے۔ مثال کے طور پر، واشنگٹن پوسٹ نے مودی کے اقدامات کو “کشمیر کا جوکھم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اندرونی سیاسی مقاصد علاقائی عدم استحکام کو بڑھا سکتے ہیں۔
یہ محتاط کوریج اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ بھارت کا بیانیہ مغربی سامعین کے درمیان اس وقت تک پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ انسانی حقوق اور سیاسی شفافیت جیسے موضوعات پر حساسیت کو نظرانداز کرتا رہے۔
چین کا توازن اور جمہوریت پر سوالات
دی اکانومسٹ اور فنانشل ٹائمز جیسے بعض یورپی اداروں نے بھارت کی اسٹریٹجک اہمیت کو تسلیم کیا، خاص طور پر چین کے توازن کے طور پر۔ تاہم، دی گارڈین اور دیر اشپیگل جیسے ادارے مودی کی داخلی پالیسیوں، خصوصاً شہریت ترمیمی قانون (CAA)، کو بنیاد بنا کر بھارت کی جمہوری حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
جی 7 اجلاس سے غیر حاضری اور سفارتی تناؤ
بھارت کا کینیڈا میں ہونے والے آئندہ جی 7 اجلاس میں شرکت نہ کرنا موجودہ سفارتی تناؤ کی نشاندہی کرتا ہے، خصوصاً اوٹاوا کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کے تناظر میں۔ یہ بھارت کی عالمی فورمز میں غیر یقینی پوزیشن کو بھی اجاگر کرتا ہے، جہاں طاقت کے عالمی مراکز مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں۔
بدلتے ہوئے جیوپولیٹیکل بیانیوں کے درمیان، بھارت کا تزویراتی پیغام مغربی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں مؤثر انداز میں پذیرائی حاصل کرنے میں اب بھی مشکلات کا شکار ہے۔