ترجمان دفتر خارجہ شفقت خان نے ہفتہ وار بریفنگ میں افغانستان کی سرزمین سے پاکستان مخالف دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیمیں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) افغان سرزمین سے بیرونی حمایت کے ساتھ متحرک ہیں۔ ان کے بقول بھارت کی پشت پناہی سے متعلق بھی شواہد دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان تنظیموں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں اور افغان حکومت کی خاموشی یا عدم کارروائی ان خدشات کو مزید بڑھا رہی ہے۔
اسی حوالے سے امریکہ کی اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن کی حالیہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان اب بھی القاعدہ، داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ طالبان نے اس رپورٹ کو “پروپیگنڈا” قرار دے کر مسترد کر دیا ہے، تاہم پاکستانی حکام نے اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے بعض گروہوں جیسے ٹی ٹی پی کے ساتھ نظریاتی ہمدردی پرانی ہے، تاہم بلوچ لبریشن آرمی جیسے گروہوں کو برداشت کرنا یا ان کی سرگرمیوں کو نظرانداز کرنا، نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے عناصر کو افغانستان میں پناہ دینا اور ان کے خلاف کارروائی نہ کرنا طالبان حکومت پر سوال اٹھاتا ہے۔ خاص طور پر جب ان گروہوں کے بھارتی خفیہ اداروں کے ساتھ ممکنہ رابطوں کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہوں تو افغان قیادت کو ان عناصر کے خلاف سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ جیسے دھڑے پاکستان میں متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں، جن میں جدید امریکی ساختہ اسلحہ استعمال ہونے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلحہ کی ترسیل روکنے اور ان گروہوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کیلئے مشترکہ طریقہ کار وضع کیا جائے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ایک مسلم ہمسایہ ملک کے خلاف دہشتگردی کو برداشت کرنا، نہ صرف بین الاقوامی اصولوں بلکہ اسلامی اقدار سے بھی متصادم ہے۔ افغانستان اگر امن کا علمبردار بننا چاہتا ہے تو اسے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہو سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب افغانستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ ان گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کر کے یہ ثابت کرے کہ وہ علاقائی امن کا سچا حامی ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں خطے میں بداعتمادی اور کشیدگی بڑھنے کا خدشہ برقرار رہے گا۔
دیکھیں: !! ہمسایہ کا سکھ اپنا سکھ اور ہمسایہ کا دکھ اپنا دکھ