ٹورنٹو میں 13 ستمبر کو ایک متنازعہ اینٹی امیگریشن ریلی منعقد کی جا رہی ہے عین اسی وقت جب کینیڈا فرسٹ کے عنوان سے ایک مظاہرہ کرسٹی پٹس پارک میں منعقد ہوگا۔ یاد رہے یہ ایک ایسا مقام ہے جو نسلی جھگڑوں کے حوالے سے کافی شہرت رکھتا ہے۔
اس ریلی کا انعقاد جو اینیجر کی قیادت میں کیا جارہا ہے جو دوپہر 1 بجے شروع ہوکر 4 بجے اختتام پذیر ہوگی۔ اس ریلی میں امیگریشن پر پابندی، ملک بدری اور منتظمین کے مطابق ری مائیگریشن جیسے اقدامات کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ریلی کے پوسٹرز پر نعرہ درج ہے
Stop mass immigration, start mass deportations
اسی طرح شہریوں سے کہا جا رہا ہے کہ کینیڈا کو سب سے پہلے رکھو۔
ردّ عمل
اس ریلی کے خلاف کئی جوابی مظاہروں کی توقع کی جارہی ہے جو “نفرت نہیں، مہاجرین کو ہاں! اس طرح کے کئی بینرز تیار کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں کا آغآز 12 بجے شروع ہوگا اور ان میں شمولیت کے لیے خاندانوں اور مقامی کمیونٹی کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ منتظمین کے مطابق انھیں عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
ٹورنٹو حکام نے ممکنہ کشیدگی کے پیش نظر سیکیورٹی انتظامات مکمل کرلیے ہیں خاص طور پر چونکہ کرسٹی پٹس پارک 1933 میں نسل پرستی کی بنیاد پر ہونے والے جھگڑے کا مرکز رہ چکا ہے جب ایک سواستیکا جھنڈے نے کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے فسادات کو جنم دیا تھا۔
منتظمین کا مؤقف
جو اینجر کے مطابق یہ ریلی نفرت کے لیے نہیں بلکہ کینیڈین معاشرے کو غیر قانونی امیگریشن کے حقیقی اثرات سے بچانے کے لیے ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کینیڈین عوام اپنے ملک میں اجتماعی امیگریشن کو روکنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں اور ان عناصر کے خلاف صف آرا ہیں جو ان کے بقول کینیڈین ثقافت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد ثقافت اور وطن کا تحفظ ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ غیر ملکیوں کو اُس ملک کا احترام کرنا چاہیے جس نے انہیں چھت فراہم کی۔
تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ری مائیگریشن جیسے الفاظ اکثر نسلی صفائی کے لیے استعمال کیے جانے الفط ہیں جن کا مقصد مہاجرین پر واپسی کے لیے دباؤ ڈالنا ہوتا ہے۔
پاکستان کا مؤقف
اسلام آباد میں یہ ریلی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے کیونکہ اس میں اٹھنے والے نکات پاکستان کے داخلی حالات سے بھی مماثلت رکھتے ہیں۔
پاکستانی حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کینیڈین شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک اور معاشرے کے تحفظ کے لیے غیر قانونی تارکین وطن کو اپنے ممالک واپس بھیجیں۔ نیز دنیا کو پاکستان کے خودمختار حق کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک سے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجے خاص طور پر ایسے وقت میں جب ان کے قیام کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہو۔
غیر قانونی تارکین وطن کسی بھی ملک کے استحکام کے لیے خطرے کا باعث ہوتے ہیں اور جو ملکی قوانین کی خلاف ورزی کریں انہیں ملک بدر کرنا چاہیے۔
انہوں نے اس کینیڈین ریلی اور پاکستان کی ملک بدری کی پالیسی کے درمیان مماثلت پر زور دیا۔
گزشتہ برس میں غیر قانونی افغان باشندوں کی ملک بدری کے عمل کو تیز کر دیا ہے یہ کہتے ہوئے کہ غیر قانونی رہائشی آبادیاں سلامتی و استحکام کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔
وسیع تر اثرات
یہ ریلی اس وقت ہو رہی ہے جب مغربی ممالک میں امیگریشن اور سماجی انضمام کے مسائل پر بحث زور پکڑ رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹورنٹو میں یہ تحریک ایک چھوٹے گروہ کی قیادت میں ہو رہی ہے، لیکن یہ ایک بڑے رجحان کا حصہ ہے جس میں شمالی امریکہ اور یورپ میں دائیں بازو کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔
ٹورنٹو کے لیے 13 ستمبر نہ صرف اظہار رائے کی آزادی کا امتحان ہوگا بلکہ یہ شہر کی پرانی نسلی و ثقافتی تقسیم کو بھی بے نقاب کرے گا ساتھ ساتھ اس بات کو بھی واضح کرے گا کہ ثقافتی شناخت کا مفہوم مختلف حلقوں کے لیے کیا ہے۔
دیکھیں: سابق نیپالی وزیراعظم کی اہلیہ مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں جل کر ہلاک ہو گئیں