قطر میں حماس کی قیادت کے خلاف ناکام فضائی حملے کے بعد اسرائیلی میڈیا میں طوفانِ بحث چھڑ گیا ہے اور اب ترکی کو ممکنہ اگلے ہدف قرار دینے کی بحث زور پکڑ رہی ہیں۔ بڑے اسرائيلی اخبارات اور تجزیاتی کالم نگار اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ ترکی کی حالیہ خارجہ پالیسی، مسلم دنیا میں اس کی بڑھتی ہوئی سیاسی رسائی اور فلسطین کی کھل کر حمایت، تل ابیب کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔

اسرائیلی مین اسٹریم کالم نگار، بشمول وہ حلقے جو نیتن یاہو کے مؤقف کے نزدیک سمجھے جاتے ہیں، نے اپنی تجزیاتی تحریروں میں ترکی کو بطور ’جغرافیائی و سیاسی خطرہ‘ نمایاں کیا ہے۔ بعض کالموں میں ترکی کو نشانہ بنانے کو “اسٹریٹجک ضرورت” کہا گیا جبکہ اس بحث میں یہ نکتہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ترکی نے حالیہ برسوں میں علاقائی مفادات کے لیے اپنی سفارتکاری اور عسکری روابط کو مضبوط کیا ہے۔

پاکستان — مین اسٹریم میں کم، سوشل میڈیا پر زیادہ شور
دوسری جانب اسرائیلی مین اسٹریم میڈیا ابھی تک پاکستان کو براہِ راست ہدف کے طور پر زیرِ بحث نہیں لا رہا۔ البتہ چند آن لائن مضامین اور تجزیات میں پاکستان کے بارے میں منفی بیانات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ پاکستانی عوام میں اسرائیل و یہودیت کے خلاف مزاج غالب ہے۔
تاہم اسرائیلی سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف سخت رویّہ زیادہ واضح ہے؛ کچھ سرگرم اکاؤنٹس اور ٹرینڈنگ پوسٹس میں پاکستان کو “سبق سکھانے” تک جیسی باتیں کہی جا رہی ہیں اور انتہائی کنارے پر بعض صارفین نے یہاں تک لکھا کہ پاکستان کے عسکری یا ایٹمی اہداف کو نشانہ بنانے کی سوچ کو تقویت دی جائے۔
ماہرین اس آن لائن ہائپ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی بحث کو ریاستی پالیسی یا حقیقی حملے سے یکسر نہیں جوڑا جا سکتا، مگر یہ احساس ضرور بیدار کرتی ہے کہ کس حد تک عوامی رائے اور افواہوں سے سفارتی کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
کیا اسرائیل واقعی ان ممالک کو نشانہ بنا سکتا ہے؟
سیکیورٹی تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ ریاستی سطح پر کسی بھی اقدام کے لیے وسیع سیاسی، عسکری و سفارتی امور درکار ہوتے ہیں اور آن لائن بیانات خود بخود ریاستی پالیسی نہیں بنتے۔ تاہم دوحہ حملے کے بعد جو میڈیا و سوشل میڈیا ماحول بنا ہے، وہ خطے کی سیاسی حساسیت اور ممکنہ سفارتی کشیدگی کا اشارہ ضرور دیتا ہے۔
نتیجہ: خطرہ یا محض پراپیگنڈا؟
ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ ردِعمل میں ذمہ دارانہ سفارتی حکمتِ عملی، علاقائی ڈپلومیسی اور اقوامِ متحدہ یا دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اعتماد بحال رکھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ واضح ہے کہ قطر پر حملے کے بعد ترکی اور پاکستان جیسی ریاستوں کے خلاف جذباتی بیانیے آن لائن بھڑک رہے ہیں، مگر حقیقی جغرافیائی فیصلے طویل المعیاد سفارتی و سکیورٹی متغیروں پر مبنی ہوتے ہیں۔