افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعرات کی رات زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ پہلا دھماکا مقامی وقت کے مطابق رات 9:50 پر ہوا جبکہ چند منٹ بعد دوسرا دھماکا سنا گیا۔ افغان میڈیا نے بتایا کہ یہ دھماکے عبدالحق اسکوائر کے قریب ہوئے، جہاں کئی وزارتوں اور قومی انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر واقع ہیں۔
یہ واقعہ اورکزئی میں ہونے والے حملے کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا جس میں لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 افراد شہید ہوئے تھے۔ اس وقت افغان وزیر خارجہ متقی بھارت کے 6 روزہ دورے پر ہیں۔
افغان حکومت کا مؤقف
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر جاری بیان میں کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ ان کے مطابق واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
د کابل په ښار کې د یوې چاودنې غږ اوریدل شوی.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) October 9, 2025
خو څوک دې تشویش نه کوي، خیر او خیرت ده، د حادثې پلټنه روانه ده، تر اوسه د کوم زیان په اړه راپور نه دی ورکړل شوی.
صدای یک انفجار در کابل شنیده شد.
تحقیقات جریان دارد، تا کنون گزارش کدام زیانی داده نشده است خیر و خیرت می باشد.
کابل میں سکیورٹی فورسز الرٹ رہیں اور مختلف علاقوں میں گاڑیوں کی تلاشی لی جاتی رہی، جبکہ کئی محلوں میں موبائل فون سروس عارضی طور پرمعطل رہی۔
ٹی ٹی پی سربراہ نور ولی محسود سے متعلق افواہیں
دھماکوں کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کابل میں ہونے والے مبینہ فضائی حملے میں مارے گئے ہیں۔
Breaking news: Sources claimed An airstrike has targeted TTP Chief Mufti Noor Wali Mehsud in Kabul. However, more information is being sought in this regard to confirm the situation. https://t.co/JOyQ3qZbss
— Mahaz (@MahazOfficial1) October 9, 2025
کچھ افغان صحافیوں نے دعویٰ کیا کہ عبدالحق چوک کے علاقے میں دو مبینہ محفوظ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جہاں ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے وابستہ اہم شخصیات موجود تھیں۔
اسی طرح ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈرز اور نور ولی محسود کے ممکنہ جانشین قاری سیف اللہ محسود اور خالد محسود کی بھی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
غیر مصدقہ آڈیو پیغام
ان اطلاعات کے بعد ایک غیر مصدقہ آڈیو پیغام بھی سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس میں ایک شخص خود کو مفتی نور ولی محسود بتاتے ہوئے زندہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کے بعد کئی ایک آڈیو پیغامات جاری ہوئے جن میں خود نور ولی محسود نے اپنی ہلاکت کی تردید کی۔
🚨 Breaking :
— OsintTV 📺 (@OsintTV) October 9, 2025
TTP chief Noor Wali Mehsud releases new audio message, denies reports of his death in airstrike
‼️ Says he’s “safe and sound in our tribal homeland.”
Mentions 9 Oct, 16 Rabi-ul-Thani, and Thursday night, confirming the message is fresh.
Ab Hoga Tandav… 🔥 pic.twitter.com/UbHh4gDqUy
تاہم یہ آڈیو ٹی ٹی پی کے آفیشل ذرائع سے جاری نہیں کی گئی اور تنظیم نے تاحال اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
پاکستانی میڈیا اور بین الاقوامی ذرائع
اطلاعات کے مطابق پہلا دھماکا عبدالحق سکوائر کے قریب ہوا جبکہ دوسرا شہر نو کے علاقے میں سنا گیا۔ امریکی نشریاتی اداروں نے اپنی رپورٹس میں کہا کہ مبینہ طور پر پاکستان نے کابل سمیت پکتیکا، خوست اور جلال آباد میں ایک رات کے دوران فضائی حملے کیے۔
ذرائع کے مطابق ان آپریشنز میں ایف 16 طیارے استعمال کیے گئے جنہوں نے درست نشانہ لگانے والے میزائل فائر کیے۔
پاکستانی حکام کا ردعمل
دی خوراسان ڈائری کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی دفترِ خارجہ اور وزارتِ دفاع کے سینئر حکام نے کہا کہ انہیں میڈیا رپورٹس کا علم ہے اور معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
حکام نے مزید تفصیلات دینے سے گریز کیا۔ تاہم ماضی میں بھی پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین پر کیے جانے والے مبینہ حملوں پر اسلام آباد نے خاموشی اختیار کی تھی۔
افغان صحافیوں اور ماہرین کا ردعمل
افغان صحافی بلال سروری نے ایکس پر لکھا کہ کابل میں بمباری کے دوران ٹی ٹی پی کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر ہیں۔
سابق امریکی سفیر زلمی خلیل زاد نے بھی اپنے بیان میں سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان نے کابل میں بمباری کی ہے، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ابتدائی اطلاعات غلط بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
دوسری جانب آمو نیوز کے دعوے کے بعد وکی پیڈیا نے نور ولی محسود کی پروفائل اپ ڈیٹ کرتے ہوئے 9 اکتوبر کو ان کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

نور ولی محسود کا پس منظر
مفتی نور ولی محسود 26 جون 1978 کو جنوبی وزیرستان میں پیدا ہوئے۔ وہ 2018 میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے سربراہ بنے۔ محسود نے 2003 میں محسود طالبان گروہ میں شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں 2007 میں بیت اللہ محسود کے ساتھ ٹی ٹی پی کا حصہ بنے۔
ان پر پاکستان میں سیکڑوں شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتوں کے الزامات تھے۔ حال ہی میں پاکستان کے معروف دینی اداروں جامعہ احسن العلوم کراچی اور جامعہ دارالعلوم یاسین القرآن نے ان کے دینی اسناد منسوخ کرتے ہوئے ان کے اقدامات کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔
کابل دھماکوں اور مفتی نور ولی محسود کی مبینہ ہلاکت کے حوالے سے تاحال کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی۔ اگر ان کی موت کی اطلاع درست ثابت ہوتی ہے تو یہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ تاہم اس وقت خطے میں کشیدگی، افواہوں اور سیاسی جوڑ توڑ کے بیچ حقائق تک پہنچنا مشکل بنا ہوا ہے۔
دیکھیں: باجوڑ میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کی جانب سے گھروں میں خفیہ سرنگوں کا انکشاف، اسلحہ برآمد