علی ترین نے کہا ہے کہ پی سی بی اور پی ایس ایل مینجمنٹ نے انہیں ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا، جس میں مذکور تھا کہ وہ بورڈ کے خلاف تنقیدی بیانات واپس لیتے ہوئے معافی مانگیں
ماہرین کے مطابق یہ انکشاف اس حقیقت کو مزید تقویت دیتا ہے کہ افغانستان نہ صرف دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے بلکہ وہاں سے پاکستان کے خلاف منظم کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں۔
پاکستان نے بارہا کابل حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ اپنی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے مگر اشرف غنی کی حکومت نے ہمیشہ بھارت کے اشاروں پر عمل کیا۔2014 کے بعد جب امریکا نے اپنی فوجی موجودگی کم کی تو افغانستان میں طالبان نے دوبارہ طاقت حاصل کرنا شروع کی۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا دار العلوم دیوبند کا دورہ، فقید المثال استقبال کیا گیا
یہ دورہ نہ صرف بھارت-افغانستان تعلقات کے نئے دور کی شروعات سمجھا جا رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں مذہبی ڈپلومیسی کے بڑھتے رجحان کی علامت بھی ہے۔
1 min read
“یہ سفر بہت اچھا رہا۔ میں دیوبند کے علما اور عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات کا مستقبل بہت روشن دکھائی دیتا ہے۔”
ہندوستان کے معروف مذہبی و تعلیمی مرکز دارالعلوم دیوبند نے ہفتے کے روز افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی کا تاریخی اور پرتپاک استقبال کیا۔ متقی کا قافلہ صبح ساڑھے آٹھ بجے نئی دہلی سے روانہ ہوا اور تقریباً دوپہر 12 بجے سہارنپور (اتر پردیش) میں واقع دیوبند پہنچا۔
ادارے کی انتظامیہ نے ان کے استقبال کے لیے 15 ممتاز علمائے کرام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔ استقبال کی تقریب مہتمم دارالعلوم مفتی ابوالقاسم نعمانی کی نگرانی میں ہوئی، جس میں جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی سمیت متعدد جید اساتذہ شریک ہوئے۔
نماز، درس اور علما سے ملاقاتیں
دارالعلوم پہنچنے کے بعد مولوی امیر خان متقی نے ظہر کی نماز دارالعلوم کی مرکزی مسجد میں ادا کی۔ بعد ازاں انہوں نے ایک کلاس روم میں بیٹھ کر طلبہ کو درس بھی دیا اور ادارے کے نصاب، طرزِ تدریس اور لائبریری کے نظام کا تفصیلی جائزہ لیا۔
اس موقع پر مولانا ارشد مدنی نے کہا:
“ہمارا افغانستان کے ساتھ ایک علمی و تعلیمی رشتہ ہے۔ وہ اپنے مادرِ علمی میں ملاقات کے لیے آئے ہیں اور بعد میں ہم سے بھی تبادلہ خیال کریں گے۔”
امیر خان متقی کا اظہارِ تشکر اور بیان
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے دیوبند میں میڈیا سے مختصر گفتگو میں کہا:
“یہ سفر بہت اچھا رہا۔ میں دیوبند کے علما اور عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات کا مستقبل بہت روشن دکھائی دیتا ہے۔”
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا دار العلوم دیوبند کا دورہ، فقید المثال استقبال کیا گیا۔
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے دیوبند میں میڈیا سے مختصر گفتگو میں کہا کہ ”یہ سفر بہت اچھا رہا۔ میں دیوبند کے علما اور عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔… pic.twitter.com/t0z3UGoeOA
انہوں نے مزید کہا کہ علم اور روحانیت کی یہ سرزمین افغانستان کے عوام کے لیے ہمیشہ رہنمائی کا منبع رہی ہے۔
سیکورٹی کے سخت انتظامات
افغان وزیرِ خارجہ کے دورے کے پیشِ نظر سہارنپور اور دیوبند میں سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے۔ پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔
ادارے میں خواتین صحافیوں کے لیے علیحدہ نشستوں کا انتظام کیا گیا تاکہ ادارے کی روایتی پالیسی کے مطابق نظم برقرار رکھا جا سکے۔
دارالعلوم دیوبند — تاریخی و فکری مرکز
دارالعلوم دیوبند کو برصغیر کا سب سے بڑا اسلامی تعلیمی ادارہ مانا جاتا ہے۔ 1866 میں قائم ہونے والا یہ ادارہ الازہر یونیورسٹی (مصر) کے ہم پلہ سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان سمیت درجنوں ممالک کے علما اس ادارے سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔
اس وقت 15 افغان طلبہ دارالعلوم میں زیرِ تعلیم ہیں۔ سال 2000 کے بعد سخت ویزہ قوانین کے باعث افغان طلبہ کی تعداد میں کمی آئی، لیکن ماضی میں سینکڑوں افغان طلبہ یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
تاریخی پس منظر — افغانستان اور دیوبند کا تعلق
دارالعلوم دیوبند اور افغانستان کے درمیان علمی و فکری روابط صدیوں پر محیط ہیں۔ طالبان قیادت خود کو دیوبندی مکتبِ فکر سے وابستہ سمجھتی ہے اور دارالعلوم کو اپنی فکری بنیاد تصور کرتی ہے۔
افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے بھی دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا تھا، جس کی یاد میں ادارے میں آج بھی “بابِ ظاہر” کے نام سے دروازہ موجود ہے۔
سفارتی پہلو — طالبان کی نئی سفارتی پالیسی؟
یہ دورہ نہ صرف مذہبی بلکہ سفارتی لحاظ سے بھی انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، امیر خان متقی کا یہ دورہ پاکستان کے اس بیانیے کو چیلنج کرتا ہے کہ طالبان کی مذہبی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ دیوبند آمد سے طالبان یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کی فکری بنیادیں ہندوستانی سرزمین سے جڑی ہیں اور وہ اپنی خارجہ پالیسی میں نئی سمت اختیار کر رہے ہیں۔
یہ قدم اس امر کا بھی اظہار ہے کہ طالبان اب پاکستان پر انحصار کم کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔
بھارتی رویہ اور عالمی تاثر
دلچسپ امر یہ ہے کہ عالمی سطح پر جہاں طالبان حکومت کو تاحال باضابطہ تسلیم نہیں کیا گیا، وہیں بھارت نے متقی کا خیرمقدم کر کے ایک نرم رویہ اختیار کیا ہے۔
بھارت کا یہ رویہ اس کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے، جہاں ایک جانب وہ دہشت گردی کے خلاف دعوے کرتا ہے اور دوسری جانب طالبان رہنماؤں کو عزت و تکریم سے خوش آمدید کہ ہے۔ بھارت ہی کے مطابق افغانستان اب بھی دہشت گردی کا مرکز اور بہت سے دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے۔ مگر اس دہشت گردی کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کیلئے وہ ایسے اقدامات کر رہا ہے۔
مذہب، سیاست اور سفارت کا امتزاج
امیر خان متقی کا دیوبند کا یہ دورہ اسلامی ورثے، سفارتی حقیقت اور خطے کی بدلتی حرکیات کا امتزاج ہے۔
یہ دورہ نہ صرف بھارت-افغانستان تعلقات کے نئے دور کی شروعات سمجھا جا رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں مذہبی ڈپلومیسی کے بڑھتے رجحان کی علامت بھی ہے۔
علی ترین نے کہا ہے کہ پی سی بی اور پی ایس ایل مینجمنٹ نے انہیں ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا، جس میں مذکور تھا کہ وہ بورڈ کے خلاف تنقیدی بیانات واپس لیتے ہوئے معافی مانگیں